Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 93
لَیْسَ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْۤا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اَحْسَنُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۠   ۧ
لَيْسَ : نہیں عَلَي : پر الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ : اور انہوں نے عمل کیے نیک جُنَاحٌ : کوئی گناہ فِيْمَا : میں۔ جو طَعِمُوْٓا : وہ کھاچکے اِذَا : جب مَا اتَّقَوْا : انہوں نے پرہیز کیا وَّاٰمَنُوْا : اور وہ ایمان لائے وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ : اور انہوں نے عمل کیے نیک ثُمَّ اتَّقَوْا : پھر وہ ڈرے وَّاٰمَنُوْا : اور ایمان لائے ثُمَّ : پھر اتَّقَوْا : وہ ڈرے وَّاَحْسَنُوْا : اور انہوں نے نیکو کاری کی وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : نیکو کار (جمع)
جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور نیک کام کرتے رہتے ہیں ان پر اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جس کو وہ کھاتے ہوں جبکہ وہ لوگ تقوی رکھتے ہوں،289 ۔ اور ایمان رکھتے ہوں اور نیک کام کرتے ہوں پھر تقوی کریں،290 ۔ اور ایمان رکھتے ہوں اور پھر تقوی کریں اور خوب نیک کاری کریں،291 ۔ اور اللہ تو محبت رکھتا ہے خوب نیکوکاری کرنے والوں سے،292 ۔
289 ۔ (اور اس لئے اس وقت کی حرام چیزوں سے محترز ہوں) (آیت) ” فیما طعموا “۔ جبکہ وہ وہ چیزیں کھا رہے ہوں جو اس وقت میں حلال ہوں۔ طعموا بمالم یحرم علیھم (بیضاوی) روایتوں میں آتا ہے کہ جب شراب وقمار کی حرمت کی آیت نازل ہوئی تو لوگوں نے سوال کیا کہ پھر ان کا کیا حشر ہوگا جواب تک شراب پیتے اوقمار کا مال کھاتے رہے ؟ اور پھر اب زندہ بھی نہیں، جو توبہ و استغفار سے کام لیں بلکہ وفات پاچکے ہیں ؟ یہ آیت اسی پر نازل ہوئی۔ سوال اسی پر نازل ہوئی۔ سوال اسی قسم کا تھا جیسے حکم تحویل قبلہ کے بعض صحابیوں نے سوال کیا تھا کہ کہ جو نمازیں بیت المقدس کی طرف پڑھی جا چکی ہیں، ان کا کیا حشر ہوگا ؟ اور اس کا جواب بھی قرآن ہی میں موجود ہے۔ (آیت) ” ماکان اللہ لیضیع ایمانکم “۔ سوال دونوں موقعوں پر بالکل قدرتی تھا۔ اور آج جن لوگوں نے سوال پر استعجاب ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے خود اپنی سطحیت وکم فہمی کا ثبوت پیش کیا ہے۔ چار چار صحابیوں ابن عباس، جابر وبراء بن عازب وانس بن مالک ؓ اور چار چار تابعیوں حسن، مجاہد، قتادہ، ضحاک کی سند سے جصاص نے لکھا ہے کہ لما حرم الخمر کان قد مات رجال من اصحاب رسول اللہ ﷺ وھم یشربون الخمر قبل ان تحرم فقالت الصحابۃ کیف بمن مات منا وھم یشربونھا فانزل اللہ تعالیٰ ھذہ الایۃ۔ 290 ۔ یعنی ان چیزوں کو ترک کردیں جو پہلے حلال تھیں اور اب حرام ہوگئی ہیں (آیت) ” وعملوا الصلحت “۔ یہ عمل صالح خود دلیل ہے ان کے ایمان وتقوی کی۔ 291 ۔ مطلب یہ ہوا کہ نزول شریعت کے ہر دور میں، ہر منزل میں وہ اتباع احکام اور احترام قیود پر حریص ہوں، احسان سلوک شرعی میں آخری مرتبہ کا نام ہے۔ ایک تو ہوا کسی کام کو محض کردینا اور ایک ہے اس کام کو بہ وجہ احسن کرنا، دل وجان سے کرنا، اس میں حسن و زیبائی کے کمالات پیدا کرکے کرنا۔ اسی کا نام احسان ہے لفظ ” احسان “ اردو میں جس مفہوم کے لئے چلا ہوا ہے اس سے یہاں کوئی تعلق نہیں (آیت) ” ثم اتقوا “۔ اس تقوی سے بھی یہی مراد ہے کہ جو چیز اب حرام ہوئی ہے اسے ترک کردیں (آیت) ” وامنوا “۔ یہاں کی تصریح سے اشارہ اوپر ہوگیا کہ وہی ایمان ہی مبنی اور منشا سارے اعمال صالحہ کا ہے، جصاص رازی نے لکھا ہے کہ تقوی کا ذکر آیت میں تین مرتبہ آیا ہے اور ہر مرتبہ ایک نئی مراد ہے پہلے تقوی سے اشارہ ماضی کی طرف ہے اور دوسرے سے مستقبل کی طرف۔ اور تیسرے سے مراد بندوں پر ظلم و زیادتی سے پچنا ہے۔ واعاد ذکر الاتقاء فی الایۃ ثلاث مرات فاما الاول فمن اتقی فی ماسلف والثانی الاتقاء منھم فی مستقبل الاوقات والثالث اتقاء ظلم العباد والاحسان الیھم۔ 292 ۔ (سو ایسے ایمان، تقوی وحسن عمل والوں کے مبغوض ومردود ہونے کا تو احتمال ہی نہیں۔ ان کا شمار تو محبوبوں اور مقبولوں میں ہے) علماء نے اس پوری آیت سے ہر مباح لذت سے پورے استلذ اذ وانتفاع کا جواز نکالا ہے۔ قال ابن خویز منداد تضمنت ھذہ الایۃ تناول المباح والشھوات والانتفاع بکل لذیذ من مطعم ومشرب ومنکح وان بولغ فیہ وتنوھی فی ثمنہ (قرطبی)
Top