Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 94
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَیَبْلُوَنَّكُمُ اللّٰهُ بِشَیْءٍ مِّنَ الصَّیْدِ تَنَالُهٗۤ اَیْدِیْكُمْ وَ رِمَاحُكُمْ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ یَّخَافُهٗ بِالْغَیْبِ١ۚ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَيَبْلُوَنَّكُمُ : ضرور تمہیں آزمائے گا اللّٰهُ : اللہ بِشَيْءٍ : کچھ (کسی قدر) مِّنَ : سے الصَّيْدِ : شکار تَنَالُهٗٓ : اس تک پہنچتے ہیں اَيْدِيْكُمْ : تمہارے ہاتھ وَرِمَاحُكُمْ : اور تمہارے نیزے لِيَعْلَمَ اللّٰهُ : تاکہ اللہ معلوم کرلے مَنْ : کون يَّخَافُهٗ : اس سے ڈرتا ہے بِالْغَيْبِ : بن دیکھے فَمَنِ : سو جو۔ جس اعْتَدٰي : زیادتی کی بَعْدَ ذٰلِكَ : اس کے بعد فَلَهٗ : سو اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اے ایمان والو اللہ تمہیں آزمائے گا قدرے شکار سے جس تک تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے پہنچ سکیں،293 ۔ تاکہ اللہ معلوم کرلے کہ کون شخص اس سے بےدیکھے ڈرتا ہے،294 ۔ سو جو کوئی اس کے بعد حد سے نکلے گا تو اس کے لئے عذاب دردناک ہے،295 ۔
293 ۔ یعنی وہ شکار کے جانور تم سے بہت دور بھی نہ ہوں گے۔ قریب ہی پھرتے رہیں گے کہ تمہارے لئے ان کا شکار بہ آسمانی ممکن ہوگا۔ روایتوں میں آتا ہے کہ یہ ذکر مقام حدیبیہ کا ہے۔ شکار کے جانور بالکل آس پاس لگے پھرتے تھے لیکن مسلمان حالت احرام میں تھے اس لیے شکار سے محتاط ومحترز رہے۔ انزلت ھذہ الایۃ فی عمرۃ الحدیبیۃ فکانت الوحش والطیر والصید تفشاھم فی رحالھم (ابن کثیر) (آیت) ” لیبلونکم اللہ “۔ سورة شروع میں آچکا ہے کہ حالت احرام میں شکار ممنوع ہے اب یہاں اس کی کچھ تفصیل بیان ہوگی۔ ملاحظہ ہوں سورة مائدہ کے حواشی نمبر 4 ومابعد۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ (آیت) ” لیبلونکم “ سند ہے ان مشائخ کے لیے جو اپنے طالبین کے صدق واخلاص کا امتحان کرتے رہتے ہیں۔ (آیت) ” من الصید “۔ میں من یا تو تبعیض کے لئے ہے یا تمییز کے لئے یا جنس کے لئے۔ قیل فی موضع من ھھنا انھا للتبعیض وقیل انھا للتمییز (جصاص) ومن للتبعیض اولبیان الجنس (مدارک) یرید بعض الصید فمن للتبعیض (قرطبی) 294 ۔ یعنی اس ان دیکھے معبود کے احکام کی خلاف ورزی سے ڈرتا ہے۔ (آیت) ” لیعلم اللہ “۔ یعنی تاکہ اللہ دنیا کی نظر میں بھی اس شخص کے عمل سے معلوم کرلے۔ اللہ کا علم تو ہمیشہ ہی سے ہے۔ ایسے موقعوں پر مراد یہ ہوتی ہے کہ اس شخص کے عمل سے بھی یہ کیفیت ظاہر ہوجائے۔ 295 ۔ (آیت) ” بعد ذلک “۔ یعنی اس حکم حرمت کے بعد یا اس شکار کی آزمائش کے بعد۔ بعد ذلک الابتلاء بالصید (بیضاوی) (آیت) ” اعتدی “۔ یعنی احکام شرعی کی حد سے نکلے گا اور شکار ممنوع کا مرتکب ہوگا۔ صحابہ ؓ شکار کے خاص طور پر عادی تھے۔ اس لیے ان کی اطاعت اور قوت ضبط کا پورا امتحان ہورہا تھا۔ (آیت) ” بشیء “۔ یہ دل بڑھانے کے لئے ہے کہ امتحان کوئی ایسا بڑا نہیں۔ ایک حقیر ہی شے کا ہے۔ التقلیل والتحقییر فی بشیء للتنبیہ علی انہ لیس من العظائم (بیضاوی) لیعلم انہ لیس بفتنۃ من الفتن العظام التی تدحض عندھا اقدام الثابتین (کشاف)
Top