Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 96
اُحِلَّ لَكُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَ طَعَامُهٗ مَتَاعًا لَّكُمْ وَ لِلسَّیَّارَةِ١ۚ وَ حُرِّمَ عَلَیْكُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ
اُحِلَّ : حلال کیا گیا لَكُمْ : تمہارے لیے صَيْدُ الْبَحْرِ : دریا کا شکار وَطَعَامُهٗ : اور اس کا کھانا مَتَاعًا : فائدہ لَّكُمْ : تمہارے لیے وَلِلسَّيَّارَةِ : اور مسافروں کے لیے وَحُرِّمَ : اور حرام کیا گیا عَلَيْكُمْ : تم پر صَيْدُ الْبَرِّ : جنگل کا شکار مَا : جب تک دُمْتُمْ : تم ہو حُرُمًا : حالت احرام میں وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ الَّذِيْٓ : وہ جو اِلَيْهِ : اس کی طرف تُحْشَرُوْنَ : تم جمع کیے جاؤگے
تمہارے لئے دریائی شکار اور اس کا کھانا جائز کیا گیا تمہارے نفع کیلئے اور قافلوں کے لیے،303 ۔ اور تمہارے اوپر جب تک تم کو حالت احرام میں ہوخش کی کا شکار حرام کیا گیا اللہ سے ڈرتے رہو جس کے پاس جمع کئے جاؤ گے،304 ۔
303 ۔ بحری مسافروں کے لئے دریائی جانوروں کے شکار کی اجازت ان کے حق میں رحمت خاص ہے۔ یہ ہدایتیں حالت احرام کے بارے میں مل رہی ہیں۔ وانتم حرم کے تحت میں (آیت) ” صید البحر “۔ بحر سے صرف سمندر مراد نہیں، ہر قسم کے دریا، ندی جھیل، تالاب وغیرہ غرض پانی کا ہر ذخیرہ اس کے تحت میں آجاتا ہے۔ عنی بالبحر فی ھذا الموضع الانھار کلھا والعرب تسمی الانھار بحارا (ابن جریر) اصل البحر کل مکان واسع جامع للماء الکثیر (راغب) المقصد فیہ صید الماء فسائر حیوان الماء یجوز للمحرم اصطیادہ ولا نعلم خلافا فی ذلک بین الفقھاء (جصاص) والمراد بالبحر جمیع المیاہ والانھار (کبیر) والمراد بالبحر جمیع المیاہ (معالم) اور دریائی جانور کی تعریف فقہاء نے یہ کی ہے کہ وہ وہ جانور ہے جس کا مولد ہی پانی ہے اور مسکن بھی پانی۔ اس لئے مرغابی، بط وغیرہ اس تعریف کے بعد دریائی جانور کے حکم سے نکل گئے۔ (آیت) ” طعامہ “۔ میں ضمیر صید کی طرف ہے۔ قیل الضمیر للصید وطعامہ اکلہ “۔ اور اس پر کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن بہت سے ارباب تفسیر ادھر بھی گئے ہیں کہ ضمیر بحر کی جانب ہے۔ ماقذفہ اونضب عنہ (بیضاوی) تو گویا اب دوچیزیں ہوئیں ایک (آیت) ” صید البحر “۔ اور دوسرے طعام البحر۔ یہ ترکیب مان کر دونوں میں فرق یہ کیا گیا ہے کہ صید البحر وہ جانور ہے جس کا شکار کرکے اسے مارا جائے۔ اور طعام البحر وہ جانور ہے جسے دریا خود پھینک دے یا جو پانی کے پیچھے ہٹ آنے سے رہ جائے اور یہ تفریق حضرت صحابہ بلکہ حضرت صدیق ؓ سے مروی ہے۔ طعامہ ما قذف بہ (ابن جریر۔ عن ابن عباس ؓ طعام ماقذف منہ (ابن جریر۔ عن قتادۃ) وھو الاحسن ماذکرہ ابوبکر الصدیق ؓ ان الصید ما صید بالحیلۃ حال حیاتہ والطعام ما یوجد مما لفظہ البحر اونضب عنہ الماء من غیر معالجۃ فی اخذہ ھذا ھو الاصح (کبیر) اس (آیت) ” احل لکم “۔ سے مرشد تھانوی (رح) نے یہ استنباط کیا ہے کہ اس میں زہد کی تعدیل اور اس میں غلو کرنے سے منع ہے۔ 304 ۔ ہر حکم، ہر قید کو نفس کے لئے خوشگوار بنادینے والا ہی استحضار حاکم مطلق کی حکومت کا ہے۔ (آیت) ” حرم علیکم “۔ یہ حکم حرمت عام ہے شکار پکڑنے والے اور اس میں (آیت) ” معین “۔ ہونے والے دونوں پر۔
Top