Tafseer-e-Majidi - Adh-Dhaariyat : 40
فَاَخَذْنٰهُ وَ جُنُوْدَهٗ فَنَبَذْنٰهُمْ فِی الْیَمِّ وَ هُوَ مُلِیْمٌؕ
فَاَخَذْنٰهُ : تو پکڑ لیا ہم نے اس کو وَجُنُوْدَهٗ : اور اس کے لشکروں کو فَنَبَذْنٰهُمْ : تو پھینک دیا ہم نے ان کو فِي الْيَمِّ : سمندر میں وَهُوَ مُلِيْمٌ : اور وہ ملامت زدہ تھا
سو ہم نے اس کو اور اس کے لشکر کو پکڑ کر سمندر میں پھینک دیا اور وہ تھا ہی قابل ملامت،23۔
23۔ (اور مستحق عذاب) (آیت) ” برکنہ “۔ اپنی قوت یا اپنے سازوسامان زعم وپندار میں۔ رکن کے معنی قوت یا سازوسامان کے بھی آتے ہیں۔ اور اس ترکیب کو مان کر ب، باء تعدیہ ہوگی۔ یستعار للقوۃ (راغب) قیل بقوتہ و سلطانہ (بحر) والرکن مایرکن الیہ الانسان من مال وجند (مدارک) ” اپنے زور پر “ (شاہ عبدالقادر (رح) دہلوی) ۔ والباء للتعدیۃ حینئذ بمعنی فقوی بجندہ (کبیر) رکن کے معنی قوم کے بھی لیے گئے ہیں۔ اس صورت میں ب باء مصاحبۃ ہوگی، اور ترجمہ ہوگا، ” مع اپنی قوم کے “۔ الباء للمصابحۃ والرکن اشارۃ للقوم (کبیر) (آیت) ” وھو ملیم “۔ یعنی یہ سزائے غرقابی اس کے حق میں ظلم ذرا سی بھی نہ تھی۔ (آیت) ” ملیم “۔ اسم فاعل یہاں اسم مفعول یعنی ملوم مستحق ملامت کے معنی میں ہے۔ الام اے استحق اللوم (راغب) ھو ملیم اے ھوملوم (ابن کثیر) امام رازی (رح) نے یہاں قرآن مجید کی دوسری آیت نقل کرکے جس میں یہی لفظ (آیت) ” وھو ملیم “۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کے متعلق بطن حوت سے نجات کے سلسلہ میں آیا ہے۔ استنباط یہ کیا ہے کہ مومن کا گناہ تو ظہور یہ اس کے وقت مغفور رہتا ہے۔ لیکن کافر کا ایمان غیر مقبول۔ فذنب ال مومن وقت ظھور الیاس مغفور و ایمان الکافر غیر مقبول (کبیر) ، او۔ کلمہ او ہمیشہ شک واشتباہی کے موقع پر نہیں آتا۔ ابہام کے لیے بھی لایا جاتا ہے۔ چناچہ یہاں بھی اسی مفہوم میں آیا ہے۔ ابو عبید لغوی ونحوی کا قول نقل ہوا ہے کہ یہاں او واؤ کا مرادف ہے۔ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دونوں باتیں کہی تھیں۔
Top