Tafseer-e-Majidi - Adh-Dhaariyat : 56
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ
وَمَا : اور نہیں خَلَقْتُ الْجِنَّ : پیدا کیا میں نے جنوں کو وَالْاِنْسَ : اور انسانوں کو اِلَّا : مگر لِيَعْبُدُوْنِ : اس لیے تاکہ وہ میری عبادت کریں
اور میں نے تو جنات اور انسان کو پیدا ہی اسی غرض سے کیا ہے کہ میری عبادت کیا کریں،33۔
33۔ عبادت۔ سے یہاں مراد فقہ کی کتاب العبادات والی عبادت پنجگانہ مراد نہیں۔ بلکہ اپنے وسیع وعام مفہوم میں طلب رضاء الہی کے مرادف مراد ہے۔ امام رازی (رح) نے کہا ہے کہ ساری عبادتوں کا خلاصہ صرف دو چیزیں ہیں ایک امر الہی کی تعظیم، دوسرے خلق اللہ پر شفقت ..... دوسرے لفظوں میں حقوق اللہ کی ادائی، حقوق العباد کی ادائی۔ ماالعبادۃ التی خلق الجن والانس لھا قلنا التعظیم لامر اللہ والشفقۃ علی خلق للہ فان ھذین النوعین لم بخل شرع منھما (کبیر) (آیت) ” الجن والانس “۔ مخلوقات میں یہ دو قسمیں ایسی ہیں جن میں خالق نے پورا احساس ذمہ داری رکھ دیا ہے۔ اور ان کے اندر ابتلاء واختیار دونوں کی صلاحیتیں جمع کردی ہیں۔ بخلاف فرشتوں کے جو ابتلاء سے خالی رکھے گئے ہیں۔ اور بخلاف حیوانات کے جنہیں اختیار کی پوری قوت نہیں دی گئی ہے۔ پوری طرح پر ذمہ دارہستیاں بناکر یہی دو مخلوق دنیا میں بھیجی گئی ہیں۔ ان کی اپنی تکمیل ذات کے لئے یہ لازمی ہے کہ یہ جو کچھ بھی کریں عبادت ہی کی راہ سے کریں، کھائیں پئیں، بولیں چالیں، چلیں، پھریں، کمائیں، خرچ کریں، ہر فعل ہر عمل سے مقصود اصلی رضاء الہی کا حصول ہی رکھیں۔ اپنے وجود کی علت غائی اسی کو سمجھیں، یہی معنی ہیں ان کی عبادت کے، عبدیت و عبادت سے خود انسانیت ہی کو پورے نشوونما کا موقع ملتا ہے۔ اور جتنی اس میں کمی رہ جائے گی، اسی نسبت سے انسان کا منشائے تکمیل ناتمام رہے گا۔ (آیت) ” لیعبدون “۔ ل تعلیل کا ہے۔ لیکن مقصود تخلیق سے اشارہ غرض وغایت تشریعی کی جانب کرنا ہے، نہ کہ مقصد تکوینی کی جانب۔
Top