Tafseer-e-Majidi - An-Najm : 9
فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ
فَكَانَ قَابَ : تو تھا اندازے سے۔ برابر قَوْسَيْنِ : دو کمان کے اَوْ اَدْنٰى : یا اس سے کم تر۔ قریب
سود وکمانوں کا فاصلہ رہ گیا بلکہ اور بھی کم،8۔
8۔ محاورۂ عرب میں مراد اس سے کمال قرب ہوتی ہے۔ جب (2) عرب آپس میں کوئی نہایت مضبوط عہد وپیماب کرنا چاہتے تھے تو اپنی اپنی کمانوں کو نکال کر انہیں باہم ملاتے تھے۔ یہاں تک کہ دنوں کے چلے مل جاتے، پھر دونوں کو اکٹھا کھینچتے اور دونوں سے ایک ہی تیر چلاتے۔ یہ گویا علامت تھی ” من تو شدم تو من شدی “۔ ہوجانے کی۔ رفتہ رفتہ زبان میں یہ محاورہ کمال قرب وغایت اتحاد واتصال کے لئے استعمال ہونے لگا، مقصود یہاں فرشتہ وحی اور رسول صاحب وحی کے درمیان غایت قرب واتصال کو دکھانا ہے۔ والمقصود تمثیل ملکۃ الاتصال وتحقیق استماعہ لما اوحی الیہ بنفی بعد المجلس (بیضاوی) یکون ذلک اشارۃ الی ان رضا احدھم رضا الاخر وسخطہ سخطہ لایمکن خلافہ (روح) وردھنا علی استعمال العرب وعادتھم (کبیر) (آیت) ” او ادنی “۔ اس میں اشارہ آگیا رسول اللہ ﷺ اور جبریل (علیہ السلام) کے درمیان کمال قرب صوری کے علاوہ غایت مناسبت روحانی کی جانب بھی جو مداراعظم معرفت تام کی ہے (تھانوی (رح)) (آیت) ” او “۔ یہاں شک کے لئے نہیں، تاکید اور وثوق میں زیادتی کے لیے ہے اور اس امر کے اظہار کے لئے کہ فاصلہ اتنی مقدار سے زائد بہرحال نہ تھا کم جتنا بھی ہو۔ قد تقدم ان ھذہ الصفۃ تستعمل فی اللغۃ لاثبات المخبرعنہ ونفی مازاد علیہ (ابن کثیر) والمراد افادۃ شدۃ القرب (روح) (آیت) ” فکان ..... ادنی “۔ رسول اللہ ﷺ سے یہ غایت قرب واتصال ظاہر ہے کہ انہی فرشتہ وحی کو حاصل ہوا۔ تابعین ہی نہیں، اجل صحابہ سے بھی یہی منقول ہے۔ ھذا المقترب الدانی الذی صاربینہ وبین محمد ﷺ انما ھو جبریل (علیہ السلام) ھو قول ام ال مومنین عائشۃ وابن مسعود ابی ذروابی ہریرہ (ابن کثیر)
Top