Tafseer-e-Majidi - Ar-Rahmaan : 30
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ : تو ساتھ کون سی نعمتوں کے رَبِّكُمَا : اپنے رب کی تم دونوں تُكَذِّبٰنِ : تم دونوں جھٹلاؤ گے
وہ ہر وقت کسی نہ کسی کام میں رہتا ہے17
17۔ یعنی کائنات میں تصرفات جو ہر لحظہ اور ہر آن جاری رہتے ہیں۔ یہ نتیجہ ہیں تمامتر اللہ تعالیٰ کی ہمہ وقتی توجہ والتفات کا، یہ ممکن نہیں کہ حق تعالیٰ پر غفلت اور بےالتفاتی ایک آن کے لئے بھی طاری ہو۔ یہیں سے رد نکل آیا ان گمراہ قوموں کا جن کے نزدیک خدا دنیا کو ایک بار پیدا کرکے اب معطل اور اس سے بےتعلق ہوبیٹھا ہے، یہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا ایک بار کے عمل تخلیق کے بعد اب معطل ہے۔ اسلام کے عقیدہ میں اس خالق اکبر و قادر مطلق کی کن فیکونی قوت کا ظہور ہر آن ہر لمحہ کائنات کی ادنی سی ادنی حرکت و تصرف میں ہوتا رہتا ہے۔ آگ اس لئے نہیں جلاتی اور پانی اس لئے نہیں دھوتا کہ آگ اور پانی میں کوئی فطری خاصیت جلانے اور دھونے کی موجود ہے، بلکہ صرف اس لئے کہ جلانے اور دھونے کے ہر ہر جزئی واقعہ سے متعلق مشیت کا حکم ہی یہی ہوتا رہتا ہے۔ اسلام کا خدا اپنی خلاقی اور فعالی کے تجلیات ہر لحظہ اور ہر آن دکھاتا رہتا ہے۔ (آیت) ” کل یوم “۔ یوم سے مراد یہ متعارف دن رات نہیں بلکہ مطلق وقت اور اس کا ہر حصہ مراد ہے۔ (آیت) ” یسئلہ .... الارض “۔ یعنی ساری کی ساری مخلوقات چاہے وہ آسمانی ہو یا زمینی، اپنی اپنی حاجتیں اور مرادیں اسی حق تعالیٰ سے طلب کرتی رہتی ہیں۔ (آیت) ” من فی السموت والارض “۔ کے اطلاق میں حضرات انبیاء کے علاوہ جنات، فرشتے سب ہی آگئے۔ مخلوق کوئی سی بھی ایسی نہیں جو اپنے اپنے مرتبہ وجود کے لحاظ سے صاحب حاجت نہ ہو، اور حاجت روا سب کا حق تعالیٰ ہی ہے۔
Top