Tafseer-e-Majidi - Al-Hadid : 23
لِّكَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَ لَا تَفْرَحُوْا بِمَاۤ اٰتٰىكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِۙ
لِّكَيْلَا : تاکہ نہ تَاْسَوْا : تم افسوس کرو عَلٰي مَا : اوپر اس کے جو فَاتَكُمْ : نقصان ہوا تم کو۔ کھو گیا تم سے وَلَا تَفْرَحُوْا : اور نہ تم خوش ہو بِمَآ اٰتٰىكُمْ ۭ : ساتھ اس کے جو اس نے دیا تم کو وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا : نہیں يُحِبُّ : پسند کرتا كُلَّ مُخْتَالٍ : ہر خود پسند فَخُوْرِۨ : فخر جتانے والے کو
) یہ بات بتادی گئی ہے) تاکہ جو چیز تم سے لی جارہی ہے اس پر (اتنا) رنج نہ کرو، اور جو چیز اس نے تمہیں دی ہے اس پر اتراؤ نہیں،33۔ اور اللہ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا،34۔
33۔ یعنی کوئی نعمت یا عطیہ الہی تمہارے دلوں میں اتراہٹ یا فخر کے جذبات نہ پیدا کرنے پائے جو طاعت الہی سے مانع ہوجاتا ہے۔ باقی رہی طبعی مسرت تو وہ تو جائز ہی نہیں بلکہ مستحسن ہے۔ اتراہٹ تو اس وقت پیدا ہوتی ہے۔ جب انسان کسی خوبی کو اپنی ذاتی استحقاق کا نتیجہ سمجھتا ہے۔ قرآن مجید نے اس کی جڑ کاٹ دی، جب نعمت کے لیے محض حق تعالیٰ کے حکم ومشیت کا استحضار ہوگیا تو اب اتراہٹ ہونے ہی کیوں لگی ؟ (آیت) ” علی مافاتکم “۔ جو چیز تم سے جاتی رہے تمہارے محبوبات ومرغوبات میں سے مثلا مال یا اولاد یا صحت و عافیت یا حسن وشباب یا کوئی عزیز یا دوست۔ ل کے اس کا عامل اخبرنا کم مقدر ہے۔ ) (آیت) ” لاتاسوا “۔ یعنی رنج وغم حد سے زیادہ نہ کرو، جو طاعت الہی میں حائل ہوجائے صدمہ طبعی سے کوئی ممانعت مقصود نہیں۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت میں علاج ہے حزن کا تقدیر کے یاد کرلینے سے نیز یہ اشارہ ہے کہ اس میں ضرور ہماری ہی مصلحت ہوگی گو ہمیں تفصیل سے علم نہ ہو۔
Top