Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 159
اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْءٍ١ؕ اِنَّمَاۤ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے فَرَّقُوْا : تفرقہ ڈالا دِيْنَهُمْ : اپنا دین وَكَانُوْا : اور ہوگئے شِيَعًا : گروہ در گروہ لَّسْتَ : نہیں آپ مِنْهُمْ : ان سے فِيْ شَيْءٍ : کسی چیز میں (کوئی تعلق) اِنَّمَآ : فقط اَمْرُهُمْ : ان کا معاملہ اِلَى اللّٰهِ : اللہ کے حوالے ثُمَّ : پھر يُنَبِّئُهُمْ : وہ جتلا دے گا انہیں بِمَا : وہ جو كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ : کرتے تھے
بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو جدا جدا کردیا اور گروہ گروہ بن گئے آپ پر ان کی کچھ بھی ذمہ داری) نہیں، ان کا معاملہ بس اللہ ہی کے حوالہ ہے،252 ۔ پھر وہی انہیں جتلا دے گا جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں،253 ۔
252 ۔ (کہ وہی خوب سب کو دیکھ بھال رہا ہے) (آیت) ” ان الذین فرقوا دینھم “۔ یعنی دین حق کو بتمامہ قبول نہ کیا کہ خواہ سب کو چھوڑ دیا، خواہ اس کے بعض حصوں کو۔ (آیت) ” دینھم “۔ مراد وہ دین ہے جس کے وہ مکلف تھے۔ اما دینھم فقد قیل الذی امرھم اللہ بہ وجعلہ دینا لھم (جصاص) (آیت) ” وکانوا شیعا “۔ یعنی کفر وشرک یا بدعت کے طریقوں کو اختیار کرکے ٹکڑیوں میں بٹ گئے، اس کا مصداق کون گروہ ہوا ہے ؟ عموما مراد یہود ونصاری سے لی گئی ہے۔ من الیھود والنصاری (ابن جریر، عن قتادۃ) ھؤلاء الیھود والنصاری (ابن جریر، عن السدی) یعنی الیھود والنصاری (ابن جیریر، عن الضحاک) مشرکین بھی مراد لیے گئے ہیں :۔ یرید المشرکین (کبیر، عن ابن عباس ؓ قال الحسن ھو جمیع المشرکین (قرطبی) اس امت کے اہل بدعت واہل ضلالت سے بھی سے مراد لی گئی ہے۔ ھم اھل البدع واھل الشبھات واھل الضلالۃ من ھذہ الامۃ (ابن جریر۔ عن ابی ہریرۃ ؓ ھم اھل البدع والشبھات (ابن جریر عن مجاہد) انما ھم اصحاب البدع واصحاب الاھواء واصحاب الضلالۃ من ھذہ الامۃ (قرطبی۔ عن عمر ؓ) کے الفاظ قرآنی میں گنجائش یقیناً سب تفسیروں کی ہے۔ لیکن اگر قرائن سے رسول اللہ ﷺ کے صرف معاصرین پیش نظر رکھے جائیں تو اس تعارف کے مصداق سب سے بڑھ کر مسیحی ہی نکلیں گے اور ان کے اندر فرقوں اور گروہوں کی تقسیم اور تقسیم کے اندر تقسیم سب سے بڑھی چڑھی ہوئی تھی۔ ملاحظہ ہو انگریزی تفسیر القرآن۔ آیت کے الفاظ سے ظاہر ہورہا ہے کہ وحدت کلمہ کے قائم و برقرار رکھنے کی اسلام میں کس قدر تاکید ہے اور امت کا تفرق وتشتت حق تعالیٰ کو کس درجہ مبغوض ہے۔ اعلم ان المراد من الایۃ الحث علی ان تکون کلمۃ المسلمین واحدۃ وان لایتفرقوا فی الدین (کبیر) ھو تحذیر من تفرق الکلمۃ ودعاء الی الاجتماع والالفۃ علی الدین (جصاص) 253 ۔ (اور یہ جتلا دینا قیامت میں ہوگا) ” چونکہ لفظ فرقوا۔ سب کو شامل ہوسکتا ہے، اس لیے عام مراد لینا انسب ہے البتہ مراتب وعید کے متفاوت ہوں گے، یعنی کفار کو عذاب تخلد ہوگا اور مبتدعین کو بہ وجہ وجود ایمان کے بعد سزائے عقائدفاسدہ کے نجات ہوگی “ (تھانوی (رح )
Top