Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 162
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ
قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّ : بیشک صَلَاتِيْ : میری نماز وَنُسُكِيْ : میری قربانی وَمَحْيَايَ : اور میرا جینا وَمَمَاتِيْ : اور میرا مرنا لِلّٰهِ : اللہ کے لیے رَبِّ : رب الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
آپ کہہ دیجیے کہ میری نماز اور میری (ساری) عبادتیں اور میری زندگی اور میری موت (سب) جہانوں کے پروردگار اللہ ہی کے لئے ہیں،258 ۔
258 ۔ آیت لب لباب ہے سارے دین اسلام کا، اور عطر یا مغز کل ملت ابراہیمی کا۔ صلوۃ۔ یعنی نماز اور نسک یعنی عام عبادتوں کا تعلق نظام تشریعیات سے اور محیا یعنی زندگی اور ممات یعنی موت کا تعلق نظام تکوینیات سے ہونا بالکل ظاہر ہے تو گویا اقرار اس کا ہورہا ہے کہ الوہیت میں بھی وہی رب برحق منفرد ہے اور ربوبیت میں بھی وہی۔ نسک سے یہاں مراد جمیع عبادات ہیں۔ قال النسک فی ھذہ الایۃ جمیع اعمال الطاعات (قرطبی) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت توحید کامل کی تعلیم پر دال ہے۔ یعنی جمیع حالات تشریعی وتکوینی میں تسلیم وتفویض عمل و اطاعت سے بھی اور رضابالقضاء سے بھی۔
Top