Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 17
وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَ١ؕ وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ بِخَیْرٍ فَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَاِنْ : اور اگر يَّمْسَسْكَ : تمہیں پہنچائے اللّٰهُ : اللہ بِضُرٍّ : کوئی سختی فَلَا : تو نہیں كَاشِفَ : دور کرنے والا لَهٗٓ : اس کا اِلَّا هُوَ : اس کے سوا وَاِنْ : اور اگر يَّمْسَسْكَ : وہ ہپنچائے تمہیں بِخَيْرٍ : کوئی بھلائی فَهُوَ : تو وہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قادر
اور اگر اللہ تجھے کوئی دکھ پہنچائے تو اس کا دور کرنے والا (بھی کوئی) نہیں بجز (خود) اسی کو، اور اگر وہ تجھے کوئی بھلائی پہنچائے تو وہ ہر شے پر پوری قدرت رکھنے والا،24 ۔
24 ۔ آفرینش کا مسئلہ تو طے ہوچکا کہ اس میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک وسہیم نہیں۔ یہاں بیان اس کا ہورہا ہے کہ علاوہ آفرنیش کے اور سارے تصرفات واختیار ات بھی ہر وقت نفع وضرر، تکلیف و راحت کے تمام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں۔ کوئی اس کے ارادہ میں حائل نہیں ہوسکتا۔ اور نہ کسی کو کوئی دخل و تصرف، واقعات کائنات و حوادث دہر میں ہے۔۔ بڑے چھوٹے دیوتاؤں، خدائی کے سارے شریکوں کی نفی اس میں آگئی ہے۔ (آیت) ” ان یمسسک اللہ بضر “۔ یہ امساس ضرر اپنے مطلق معنی میں ہے دنیا میں ہو خواہ آخرت میں بہ طور جزاء ہو یا تکوینی مصلحت سے۔ یمسسک۔ کاشف۔ امساس اور کشف دونوں یہاں حق تعالیٰ کے سلسلہ میں اپنے مجازی معنی میں ہیں۔ ورنہ اصلا دونوں کا تعلق مادیات وجسمانیات سے ہے۔ المس والکشف من صفات الاجسام وھو ھنا مجاز وتوسع (قرطبی) یہیں سے ہے کہ (صوفیہ) محققین نے سب سے زیادہ زور توحید پر، اور ہر طرف سے انقطاع تعلق کرکے اللہ ہی پر اعتماد کرنے پر دیا ہے۔ شیخ اعظم حضرت سید عبدالقادر جیلانی (رح) کی فتوح الغیب میں ہے۔ من ارادالسلامۃ فی الدنیا والاخرۃ فعلیہ بالصبر والرضاء وترک الشکوی الی خلقہ وانزال حوائجہ بربہ وانتظار الفرج منہ سبحانہ وتعالیٰ والانقطاع الیہ۔ (جس کس کو دنیا وآخرت میں عافیت مقصود ہو۔ اسے چاہیے کہ صبر و تسلیم کی عادت ڈال لے اور خلق خدا سے شکوہ وشکایت کو ترک کردے اور اپنی حاجتوں کو اپنے رب ہی کے حوالہ کردے اور کشایش کی امید صرف اسی سے رکھے اور سب سے ٹوٹ کر اسی کا ہو رہے) اور مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت میں نفی ہے غیر اللہ سے نصرت مستقل کی۔ یہاں تک کہ مقبولین سے بھی۔
Top