Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 53
وَ كَذٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْۤا اَهٰۤؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنْۢ بَیْنِنَا١ؕ اَلَیْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰكِرِیْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح فَتَنَّا : آزمایا ہم نے بَعْضَهُمْ : ان کے بعض بِبَعْضٍ : بعض سے لِّيَقُوْلُوْٓا : تاکہ وہ کہیں اَهٰٓؤُلَآءِ : کیا یہی ہیں مَنَّ اللّٰهُ : اللہ نے فضل کیا عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنْۢ بَيْنِنَا : ہمارے درمیان سے اَلَيْسَ : کیا نہیں اللّٰهُ : اللہ بِاَعْلَمَ : خوب جاننے والا بِالشّٰكِرِيْنَ : شکر گزار (جمع)
اور اس طرح ہم نے ان میں سے ایک کو دوسرے کے ذریعہ سے آزمائش میں ڈال رکھا ہے جس سے یہ لوگ کہیں گے کہ کیا یہی لوگ ہمارے درمیان میں سے ہیں جن پر اللہ نے اپنا فضل کیا ہے ؟ ،80 ۔ کیا للہ شکرگزاروں سے خوب واقف نہیں ؟ ،81 ۔
80 ۔ شروع میں اسلام کے ماننے والوں میں ضعفاء وغرباء کثرت سے تھے۔ شرکش و شریر الطبع قریش ان بیچاروں کو دیکھ دیکھ کر طنز وتعریض سے کہتے تھے کہ ” اجی ان لوگوں کی بدحالی دیکھو “۔ یہ تو اپنے دین کو اللہ کی نعمت بتاتے ہیں تو کیا یہی بدحالی اللہ کی نعمت ہے ؟ “ (آیت) ” وکذلک “۔ یعنی امارت و افلاس کے درمیان فرق قائم کرکے۔ (آیت) ” فتنا بعضھم ببعض “۔ یعنی خوشحالی کافروں کو بدحالی مومنوں کے ذریعہ سے۔ المفتون بالغنی والفقراوبالشرف والوضاعۃ والقوۃ والضعف (بحر) (آیت) ” لیقولوا “۔ میں ل، عاقبت کا ہے یعنی امارت و افلاس کی اس طبقاتی تقسیم سے ایک مقصود تکوینی امتحان بھی ہے۔ یہ کہنے والے امراء ورؤسا تھے۔ اور جن لوگوں کی طرف اشارہ تھا، وہ ضعفاء وفقراء تھے۔ یعنی الاشراف والاغنیاء وھولاء یعنی الضعفاء والفقراء (قرطبی) 81 ۔ (چنانچہ ان غریبوں، مسکینوں نے حق کو پہنچانا اور قدر کی، انہیں دولت ایمان سے سرفراز کردیا گیا، رؤساء وامراء قریش کفران و انکار میں لگے رہے۔ قسمت سے محروم رہ گئے)
Top