Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 68
وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖ١ؕ وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
وَاِذَا : اور جب رَاَيْتَ : تو دیکھے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو کہ يَخُوْضُوْنَ : جھگڑتے ہیں فِيْٓ : میں اٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں فَاَعْرِضْ : تو کنارا کرلے عَنْهُمْ : ان سے حَتّٰي : یہانتک کہ يَخُوْضُوْا : وہ مشغول ہو فِيْ : میں حَدِيْثٍ : کوئی بات غَيْرِهٖ : اس کے علاوہ وَاِمَّا : اور اگر يُنْسِيَنَّكَ : بھلا دے تجھے الشَّيْطٰنُ : شیطان فَلَا تَقْعُدْ : تو نہ بیٹھ بَعْدَ : بعد الذِّكْرٰي : یاد آنا مَعَ : ساتھ (پاس) الْقَوْمِ : قوم (لوگ) الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری نشانیوں کو مشغلہ بناتے ہوں،101 ۔ تو ان سے کنارہ کش ہوجایہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں اور اگر شیطان تجھے بھلا دے تو یاد آجانے کے بعد (ایسے) ظالم لوگوں کے پاس مت بیٹھ،102 ۔
101 ۔ (تکذیب، طنز و استہزاء کے ساتھ) بالتکذیب والاستھزاء بھا واللعن فیھا (بیضاوی) (آیت) ” اذا رایت ‘۔ خطاب یہاں عام ناظرین قرآنی سے ہے۔ ای اذا رایت ایھا السامع (کبیر) (آیت) ” الذین یخوضون فی ایتنا “۔ آیات میں یہ اں معجزات و دلائل، احکام سب آگئے، لیکن بالخصوص مراد قرآن ہے۔ ایات اللہ وھی القرآن (جصاص) یعنی فی القران (معالم) خوض۔ کے لفظی معنی بیہودہ گوئی، بےکار حجت نکالنے کے ہیں۔ لفظ لفظ الخوض فی اللغۃ عبارۃ عن المفارضۃ علی وجہ العبث واللعب (کبیر) خوض پر حاشیہ پارہ نمبر 5 میں گزر چکا (سورۃ النساء آیت 140 کے تحت میں) 102 ۔ یہاں اہل ایمان کو صاف حکم مل رہا ہے کہ جو بےدین مذہبی احکام ومسائل کے ساتھ مضحکہ و تمسخر کرتے ہیں، ان کے پاس اتنی دیر تک بیٹھنا اٹھنا جائز نہیں، بلکہ ایسے لوگوں سے کنارہ کشی واجب ہے۔ ھذا یدل علی ان علینا ترک مجالسۃ الملحدین وسائرالکفار عند اظھار ھم الکفر والشرک ومالایجوزعلی اللہ تعالیٰ (جصاص) ھذا دلیل علی ان مجالسۃ اھل المنکرلاتحل (ابن العربی) پھر جن قوموں نے وقتی وہنگامی طور پر نہیں، بلکہ اپنا مستقل مشغلہ ہی احکام اسلامی کے ساتھ طنز وتمسخربنارکھا ہے۔ ان کی صحبتوں سے کنارہ کشی، ان کی مجلسوں سے علیحدگی کس درجہ اہم وضروری ہوگی ! بےدینوں اور غیرمذہب والوں سے بلاضرورت خلامال، اور بلاکسی مصلحت کے مجالست ومخالطت اس حکم ممانعت کے تحت میں آگیا۔ (آیت) ” فلاتقعد “۔ یہاں بیٹھنے کے لفظی معنی لے کر یہ مراد نہیں مراد نہیں کہ کھڑے ہونے کی اجازت ہے۔ بلکہ قعود اپنے وسیع معنی میں ہے۔ اور بےدینوں سے صحبت و اختلاط کی ہر صورت ناجائز ہے۔ (آیت) ” اما ینسینک الشیطن “۔ یعنی اگر خیال نہ رہے، کسی اور شغل میں پڑکران لوگوں سے صحبت وہم نشینی رہے، محض سہو ونسیاں سے شریعت نے جو مواخذہ اٹھادیا ہے اس کی نظیریہ آیت بھی ہے۔ یفید ان التکلیف ساقط عن الناسی (کبیر) (آیت) ” مع القوم الظلمین “۔ فقہاء مفسرین نے یہاں سے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ اہل کفر سے مجالست ومخالطت علی العموم ممنوع ہے، خواہ وہ اپنے کو کسی نام یا لقب سے یاد کرتے ہوں، اور خواہ وہ اس خاص وقت میں اپنی شرارت وخباثت کا اظہار کررہے ہو یا نہیں۔ ذلک عموم فی النھی عن مجالسۃ سائرالظالمین من اھل الشرک واھل الملۃ لوقوع الاسم علیھم جمیعا سواء کانوا مظہرین فی تلک الحال للظلم والقبائح اوغیر مظھرین لہ لان النھی عام عن مجالسۃ الظالمین (جصاص)
Top