Tafseer-e-Majidi - Al-Qalam : 25
وَّ غَدَوْا عَلٰى حَرْدٍ قٰدِرِیْنَ
وَّغَدَوْا : اور وہ صبح سویرے گئے عَلٰي حَرْدٍ : اوپر بخیلی کے۔ بخل کرتے ہوئے قٰدِرِيْنَ : جیسا کہ قدرت رکھنے والے ہوں
اور اپنے کو اس نہ دینے پر قادر سمجھے،11۔
11۔ یہ کن باغ والوں کا ذکر ہے ؟ بعض نے کہا ہے کہ کوئی باغ حبشہ میں تھا۔ قیل کانوا میں اھل الحبشۃ (ابن کثیر) عن عکرمۃ قال ھم ناس من الحبشۃ (ابن جریر) ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ باغ یمن میں تھا۔ عن ابن عباس قال کان بستان بالیمن (معالم) قال سعید بن جبیرکانوا من قریۃ یقال لھا فروان علی ستۃ امیال من صنعاء (ابن کثیر) بہرحال جہاں کہیں بھی ہو ایسا باغ تھا جس کی تلمیح سے اہل عرب خوب واقف تھے۔ اور قصہ کا ماحصل یہ ہے کہ جو اہل غفلت اپنی تدبیروں پر نازاں اور اہل حقوق کی حق تلفی میں لگے رہتے ہیں، وہ آخر خود ہی خسارہ میں رہتے ہیں۔ (آیت) ” ولایستثنون “۔ یعنی انہیں اس درجہ وثوق اپنے صبح کے پروگرام پر تھا کہ انہوں شب کی تجویزوں میں حق تعالیٰ کے ارادہ کا خیال ہی نہ آنے دیا۔ (آیت) ” فطاف ...... نآئمون “۔ یہ لوگ تو سوتے کے سوتے رہے اور ادھر رات ہی بھر میں کوئی زمینی یا آسمانی آفت آکر باغ کا صفایا کرگئی، باغوں اور کھیتوں پر ایسی ناگہانی مصیبتیں ہر فصل اور ہر زمانہ میں برابر آتی ہی رہتی ہیں، کبھی گرم اور تیز لونے سبزہ زار کو جھلسادیا، کبھی تندآندھی نے درختوں کا ناس مار دیا۔ کبھی اتنا پالا پڑگیا کہ کھیتی برباد ہوگئی۔ کہیں آسمان سے اولے ایسے پڑے کہ پتے پتیاں تک باقی نہ رہ گئیں وقس علی ھذا (آیت) ” وھم ..... مسکین “۔ خدا فراموشی اور آخرت فراموشی کے ساتھ ساتھ یہ باغ والے، مسکینوں محتاجوں کے حصہ کے بھی روادار نہ تھے۔ کمال بخل یا شدت حرص سے۔
Top