Tafseer-e-Majidi - Al-Qalam : 43
خَاشِعَةً اَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ١ؕ وَ قَدْ كَانُوْا یُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ وَ هُمْ سٰلِمُوْنَ
خَاشِعَةً : نیچی ہوں گی اَبْصَارُهُمْ : ان کی نگاہیں تَرْهَقُهُمْ : چھا رہی ہوگی ان پر ذِلَّةٌ : ذلت وَقَدْ كَانُوْا : اور تحقیق تھے وہ يُدْعَوْنَ : بلائے جاتے اِلَى السُّجُوْدِ : سجدوں کی طرف وَهُمْ سٰلِمُوْنَ : اور وہ صحیح سلامت تھے
ان کی آنکھیں جھکی ہوں گی اور ان پر ذلت چھائی ہوگی، اور یہ لوگ سجدہ کی طرف بلائے جاتے تھے اس حال میں کہ وہ صحیح سالم تھے،25۔
25۔ (اور اس وقت سجدہ سے انکار رکھتے تھے) (آیت) ” خاشعۃ ابصارھم “۔ یہ آنکھوں کا جھکا ہونا انتہائے شرم وندامت و حسرت سے ہوگا۔ قرآن مجید میں ذکر کبھی نگاہوں کے اٹھے رہنے کا بھی آیا ہے۔ اور یہ دونوں بیانات باہم متناقض نہیں، حشر میں شدید ہولناکی کے تو مختلف احوال پیدا ہوں گے، اور انہیں کے لحاظ سے اہل دوزخ کے تاثرات بھی ادلتے بدلتے رہیں گے، کبھی غلبہ انتہائی ندامت کا ہوگا، اس وقت نظریں نیچی ہو کر زمین پر گڑ جائیں گی، کبھی غلبہ حیرت وستعجاب کا ہوگا اس وقت نظریں اوپر کو اٹھ جائیں گی، (آیت) ” وقد کانوا ..... سلمون “۔ یعنی دنیا میں جب انہیں پوری طرح قدرت حاصل تھی، اس وقت تو حکم کی تعمیل سے دانستہ گریز کرتے رہے۔ اب وہ کیفیت ان پر قدرۃ لیس دی گئی ہے۔ اب یہ اگر چاہیں جب بھی نہیں کرسکتے۔ ؛
Top