Tafseer-e-Majidi - Al-Qalam : 48
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَ لَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ١ۘ اِذْ نَادٰى وَ هُوَ مَكْظُوْمٌؕ
فَاصْبِرْ : پس صبر کرو لِحُكْمِ رَبِّكَ : اپنے رب کے حکم کے لیے وَلَا تَكُنْ : اور نہ تم ہو كَصَاحِبِ الْحُوْتِ : مانند مچھلی والے کے اِذْ نَادٰى : جب اس نے پکارا وَهُوَ مَكْظُوْمٌ : اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا
تو آپ اپنے پروردگار کی تجویز پر صبر سے بیٹھے رہئے اور مچھلی والے (پیغمبر) کی طرح نہ ہوجائیے جب کہ انہوں نے (اپنے پروردگار کو) پکارا اس حال میں وہ غم میں گھٹ رہے تھے،29۔
29۔ (آیت) ” کصاحب الحوت “۔ سے مراد ارض نینوا کے پیغمبر حضرت یونس بن متی (علیہ السلام) ہیں جن پر حاشیے سورة یونس، سورة ہود وغیرہ میں مفصل گزر چکے۔ (آیت) ” فاصبر “ آپ صبر سے کام لیتے رہئے۔ اور ان لوگوں پر فوری عذاب نہ آنے سے بددل نہ ہوجائیے۔ (آیت) ” اذ نادی “۔ ندا سے یہاں مراد اپنے پروردگار کو توبہ و استغفار کی راہ سے پکارنا ہے۔ (آیت) ” ولا تکن کصاحب الحوت “۔ یعنی ان پیغمبر کی طرح کہیں نہ ہوجائیے گا، جو وقت پر عذاب موعود کے ٹل جانے سے بدل وملول کی خاطر ہو کر بلااجازت صریح کہیں اور چلے گئے تھے۔ (آیت) ” وھو مکظوم “۔ آپ (علیہ السلام) کو غم اور صدمے کئی کئی طرح کے تھے، اور وہ سب اکھٹے ہوگئے تھے۔ ایک رنج تو قوم کے ایمان نہ لانے کا۔ دوسرا آئے ہوئے عذاب کے ٹل جانے گا۔ تیسرا بلااذن صریح اپنے مقام سے چل کھڑے ہونے کا۔ اور چوتھا شکم ماہی میں محبوس ہوجانے کا۔ (آیت) ” ولا تکن کصاحب الحوت “۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ صاحب حال کا فعل صاحب مقام کے لئے۔ اور صاحب مقام کا فعل صاحب مقام الہی کے لئے کبھی کبھی نقص کا حکم رکھتا ہے اس لئے اس سے روکا جاتا ہے۔
Top