Tafseer-e-Majidi - Al-Haaqqa : 42
وَ لَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَؕ
وَلَا بِقَوْلِ : اور نہ ہی قول ہے كَاهِنٍ : کسی کا ہن قَلِيْلًا مَّا : کتنا تھوڑا تَذَكَّرُوْنَ : تم نصیحت پکڑتے ہو
اور یہ کسی کاہن کا بھی کلام نہیں بہت ہی کم تم سمجھتے ہو،16۔
16۔ غرض یہ کہ یہ پر حکمت و عظمت کتاب نہ شعر ہے، نہ کہانت، اور تم لوگ جو ایسی بیہودہ رائے زنی کررہے ہو، ایمان وعقل دونوں سے خالی ہو۔ (آیت) ” قلیلا۔ قلیلا “۔ یہ قلت دونوں جگہ عدم کے معنی میں ہے۔ وقلیل یعبر بہ عن النفی (راغب) القلۃ فی معنی العدم (کشاف) والعرب یقولون قلما یاتینا یریدون لایاتینا (کبیر) (آیت) ” بقول شاعر “۔ مشرکین مکہ کے ایک ” روشن خیال “ گروہ کی تشخیص یہی تھی، (آیت) ” بقول کا ھن “۔ مشرکین مکہ کے ایک دوسرے ” روشن خیال “ گروہ نے یہی فتوی دے رکھا تھا۔ قرآن مجید کی معجزانہ تاثیر سے تو اہل عرب کو بھی مجال انکار نہ تھی، جیسا کہ محمد ﷺ کی معجزانہ شخصیت کے اثرات سے آج فرنگیوں کو بھی مجال انکار نہیں، البتہ جس طرح آج کے فرنگی سیرت محمدی ﷺ کی بےنظیر کامیابی کے لئے تو جی ہیں ساری دنیا کی ڈھونڈ نکالتے ہیں، بجز آپ ﷺ کے دعوی رسالت کی تصدیق کے۔ ساری طرح قریش کے ” روشن خیال “ بھی مجبور و عاجز ہو کر انہیں تاویلوں پر اتر آتے تھے کہ یا تو اسے شاعر کا کلام قرار دیں یا کاہن کا۔ شاعری اور کہانت، ادب کے انہیں دو مؤثر، پرزور حربوں سے وہ واقف تھے۔
Top