Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 18
قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مَذْءُوْمًا مَّدْحُوْرًا١ؕ لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَاَمْلَئَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكُمْ اَجْمَعِیْنَ
قَالَ : فرمایا اخْرُجْ : نکل جا مِنْهَا : یہاں سے مَذْءُوْمًا : ذلیل مَّدْحُوْرًا : مردود لَمَنْ : البتہ جو تَبِعَكَ : تیرے پیچھے لگا مِنْهُمْ : ان سے لَاَمْلَئَنَّ : ضرور بھردوں گا جَهَنَّمَ : جہنم مِنْكُمْ : تم سے اَجْمَعِيْنَ : سب
(اللہ نے) فرمایا یہاں سے تو نکل ذلیل و خوار ہو کر ان میں سے جو کوئی تیری پیروی کرے گا سو میں تم سب سے جہنم کو بھر کر رہوں گا،21 ۔
21 ۔ (سواے مردود تو یہ ڈراتا دھمکاتا کسے ہے ؟ تیری ان دھمکیوں سے ہوتا کیا ہے ؟ ساری مخلوق میں ایک متنفس بھی اگر ہماری عبادت نہ کرے تو ہمارا کیا ضرر ؟ ) کثرت سے جاہلی اور شرکیہ مذاہب میں خود معبود کو ایک بڑی حد تک بندوں کی عبادت کا محتاج مانا گیا ہے۔ قرآن مجید ضمنا ان عقائد باطل کی بھی اصلاح کرتا جاتا ہے۔ (آیت) ” قال اخرج منھا مذء و ما مدحورا لمن تبعک منھم لاملئن جھنم منکم اجمعین “ مکالمہ کا سارا لب و لہجہ مجوس کی ثنویت کی قطعی تردید میں ہے۔ جنہوں نے شیطان (اہرمن) کو بھی خدائی کا درجہ دے رکھا ہے۔ اور یہی گمراہی ذرا ہلکی صورت میں مسیحیت اور یہودیت میں بھی سرایت کیے ہوئے ہے، قرآن میں شیطان کا درجہ اللہ کے مقابلہ میں ایک مدمقابل ہمسر وحریف یا کسی چھوٹے موٹے دیوتا کا نہیں، وہ اللہ کی مخلوق ہے اور تمامتر حقیر و خوار۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ محض مکالمت ومخاطبت ہرگز مقبولیت کے مرادف نہیں۔
Top