Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 188
قُلْ لَّاۤ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ١ؕ وَ لَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَا سْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ١ۛۖۚ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوْٓءُ١ۛۚ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
قُلْ : کہ دیں لَّآ اَمْلِكُ : میں مالک نہیں لِنَفْسِيْ : اپنی ذات کے لیے نَفْعًا : نفع وَّ : اور لَا : نہ ضَرًّا : نقصان اِلَّا : مگر مَا : جو شَآءَ اللّٰهُ : چاہے اللہ وَلَوْ : اور اگر كُنْتُ : میں ہوتا اَعْلَمُ : جانتا الْغَيْبَ : غیب لَاسْتَكْثَرْتُ : میں البتہ جمع کرلیتا مِنَ : سے الْخَيْر : بہت بھلائی وَمَا مَسَّنِيَ : اور نہ پہنچتی مجھے السُّوْٓءُ : کوئی برائی اِنْ : بس۔ فقط اَنَا : میں اِلَّا : مگر (صرف) نَذِيْرٌ : ڈرانے والا وَّبَشِيْرٌ : اور خوشخبری سنانے والا لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يُّؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں
آپ کہہ دیجیے کہ میں اپنی ہی ذات کے لیے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا مگر اتنا ہی جتنا اللہ چاہے،273 ۔ اور اگر میں غیب کو جانتا رہتا تو (اپنے لیے) بہت سے نفع حاصل کرلیتا،274 ۔ اور کوئی مضرت مجھ پر واقع نہ ہوتی،275 ۔ میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں،276 ۔
273 ۔ (اور جس امر میں اس کی مشیت مجھے اختیار دینے کی متقضی نہیں ہوئی، اس میں ہر بشر کی طرح میں بھی بالکل عاجز وبے بس ہوں) 274 ۔ لیکن چونکہ میرا علم کامل و محیط نہیں اس لئے نفع تکوینی کے بہت سے مواقع ہاتھ سے جاتے ہی رہتے ہیں) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ یہ نص ہے اس باب میں کہ قدرت مستقل اور علم محیط مقبولین سے بھی منفی ہیں اور جہلاء اپنے مشائخ سے کس کس طرح اس کا گمان رکھتے ہیں۔ 275 ۔ (حالانکہ تکوینی حیثیت سے مجھے بھی مضرتیں حسب مشیت الہی واقع ہوتی رہتی ہیں) پیغمبر بھی کبھی بیمار پڑتے ہیں، کبھی مالی نقصان اٹھاتے ہیں۔ وقس علی ہذا۔ اور یہ امور ان کے کمال نبوت میں ذرا بھی قادح نہیں ہوتے۔ 276 ۔ (تو اس لیے میں علوم شرعی اور احکام شرعی سے تو خوب بہرہ ور کردیا گیا ہوں باقی امور تکوینی کے علم کامل کی توقع ہی مجھ سے کیوں کی جاتی ہے ؟ ) ۔
Top