Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 204
وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب قُرِئَ : پڑھا جائے الْقُرْاٰنُ : قرآن فَاسْتَمِعُوْا : تو سنو لَهٗ : اس کے لیے وَاَنْصِتُوْا : اور چپ رہو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگایا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے،299 ۔
299 ۔ حکم کے مخاطب ظاہر ہے کہ کفار ومنکرین ہیں اور مقصود اصلی یہ ہے کہ جب قرآن بہ غرض تبلیغ وغیرہ پڑھ کر تم کو سنایا جائے تو اسے توجہ وخاموشی کے ساتھ سنوتا کہ اس کا معجز ہونا اور اس کی تعلیمات کی خوبیاں تمہاری سمجھ میں آجائیں اور تم ایمان لاکر مستحق رحمت ہوجاؤ۔ اصل حکم تو اسی قدر تھا لیکن علماء حنفیہ نے اس کے مفہوم میں توسع پیدا کرکے اس سے حالت نماز میں مقتدی کے لیے قرآنی سورة فاتحہ کی ممانعت بھی نکالی ہے۔ اور اس باب میں علمائے امت کے درمیان طویل مباحثے ہیں جن کے اعادہ کا یہاں محل نہیں۔ ظاہرہ وجوب الاستماع والانصات وقت قراء ۃ القران فی الصلوۃ والتھلیل ونحو ذالک (مدارک) وظاہر اللفظ یقتضی وجوبھما حیث یقراء القران مطلقا (بیضاوی) (آیت) ” فاستمعوالہ وانصتوا “۔ صیغہ امر میں ہیں لیکن امر سے مراد یہاں وجوب ہے یا محض استحباب ؟ فقہاء نے جواب یہ دیا ہے کہ بہ سبب حرج اور اختلاف مجتہدین کے اولی اور اصح یہ ہے کہ صیغہ امر کو استحباب کے لیے سمجھا جائے عامۃ العلماء علی استحبابھما خارج الصلوۃ (بیضاوی) (آیت) ” انصتوا “۔ انصات ایسی خاموشی کو کہتے ہیں جو سننے ہی کے غرض سے اور بہ طور ادب ہو۔ الانصات السکوت للاستماع والاصغاء والمراعاۃ (قرطبی) قال اھل اللغۃ الانصات الامساک عن الکلام والسکوت لاستماع القران (جصاص)
Top