Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 40
اِنَّ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ اسْتَكْبَرُوْا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ وَ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰى یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ١ؕ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُجْرِمِیْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَذَّبُوْا : جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کو وَاسْتَكْبَرُوْا : اور تکبر کیا انہوں نے عَنْهَا : ان سے لَا تُفَتَّحُ : نہ کھولے جائیں گے لَهُمْ : ان کے لیے اَبْوَابُ : دروازے السَّمَآءِ : آسمان وَ : اور لَا يَدْخُلُوْنَ : نہ داخل ہوں گے الْجَنَّةَ : جنت حَتّٰي : یہانتک (جب تک) يَلِجَ : داخل ہوجائے الْجَمَلُ : اونٹ فِيْ : میں سَمِّ : ناکا الْخِيَاطِ : سوئی وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نَجْزِي : ہم بدلہ دیتے ہیں الْمُجْرِمِيْنَ : مجرم (جمع)
بیشک جن لوگوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو اور ان سے تکبر کیا ان کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے اور نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں نہ سما جائے اور ہم مجرموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں،54 ۔
54 ۔ یعنی یہ عام ضابطہ اور قانون ہمارے ہاں کا ہے جو جیسا کرے گا بھگتے گا۔ ہمیں کسی بندہ کے ساتھ کوئی کد تو ہے نہیں۔ (آیت) ” لا تفتح لھم ابواب السمآء۔ براء بن عازب ؓ صحابی کی روایت سے حدیث میں آتا ہے کہ بعد وفات جب کافر کی روح آسمان کی طرف لے جائی جانے لگتی ہے تو اس سے ایسی سخت بدبو نکلتی ہے جیسی دنیا میں مردار کی ہوتی ہے۔ اس پر آسمان کے فرشتے اسے راستہ دینے اور اس کے لیے در آسمان کھولنے سے انکار کردیتے ہیں۔ قال السدے وغیرہ لا تفتح لارواحھم ابواب السماء وتفتح لارواح المومنین (کبیر) ذکروا فی صعود الروحین الی السماء الاذن لروح ال مومن ورد روح الکافر احادیث وذلک عند موتھما (بحر) دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ مکذبین ومنکرین کے اعمال برکت ومقبولیت سے محروم رہیں گے اور آسمان کی طرف بلند نہ کیے جائیں گے۔ ای لایصعد لھم عمل صالح (کشاف) وقیل لاتنزل علیھم البرکۃ ولا یغاثون (کشاف) (آیت) ” حتی یلج الجمل فی سم الخیاط “۔ محاورۂ زبان میں اس سے مراد مطلقا ایک امر محال عادی کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے۔ یعنی نہ اونٹ سوئی کے ناکہ سے نکل سکے گا اور نہ فلاں فعل ہوگا وقد کثر فی کلامھم مثل ھذہ الغایۃ و مراد ھم لاافعل کذا ابدا (روح) ھذا نفی مغیاۃ بمستحیل (بحر) انجیل میں بھی اس محاورہ کا استعمال ایک ایسے ہی موقع پر ہوا ہے ” اور یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ دولت مند کا آسمان کی بادشاہت میں داخل ہونا مشکل ہے اور پھر تم سے کہتا ہوں کہ اونٹ کا سوئی کے ناکہ سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولت مند خدا کی بادشاہت میں داخل ہو “۔ (متی۔ 19:23 ۔ 24) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اسی طرح ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں بھی ابواب ملکوت کشادہ نہیں ہوتے۔
Top