Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 55
اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً١ؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَۚ
اُدْعُوْا : پکارو رَبَّكُمْ : اپنے رب کو تَضَرُّعًا : گر گڑا کر وَّخُفْيَةً : اور آہستہ اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے گزرنے والے
اپنے پروردگار سے دعا کرو، عاجزی کے ساتھ اور چپکے چپکے، بیشک وہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا،77 ۔
77 ۔ (اور دعا میں آداب دعاوعبودیت کا لحاظ نہ رکھنا بھی ایک صورت حد سے نکل جانے ہی کی ہے) آداب دعا میں یہ بھی داخل ہے کہ دعا نہ محالات عقلیہ وعادیہ کی مانگی جائے۔ اور نہ معاصی کی طلب و تمنا پیش کی جائے۔ (آیت) ” ادعواربکم “۔ یہ دعا مانگنے کی دعوت ہر حال میں اور بڑی چھوٹی ہر حاجت کے لیے دی جارہی ہے۔ (آیت) ” ربکم “ کے لفظ نے بندوں کو یاد دلادیا کہ جس سے دعا مانگ رہے ہو، وہ کوئی ظالم اور سخت گیر حاکم نے، وہ تو تمہار شفیق پروردگار ہے۔ وہی تو تمہاری مادی وروحانی ہر طرح کی ترقیوں کا ضامن ہے۔ (آیت) ” تضرعا “۔ دعا تو خود ایک عبادت ہی ہے چاہیے کہ حسب شان عبودیت لجاجت کے لہجہ میں اور خشوع قلب کے ساتھ ہو۔ بہ طور حکومت کے نہ ہو کہ جیسے موکلوں، جنات یا شیاطین کے لیے منتر، عملیات وغیرہ پڑھے جاتے ہیں، (آیت) ” خیفۃ “۔ اور دعا چلا چلا کر بھی نہ مانگو کہ نعوذباللہ) جیسے تمہارا پروردگار اونچا سنتا ہے۔ انجیل میں ہے کہ :۔” اور دعا مانگتے وقت غیر قوموں کے لوگوں کی طرح بک بک نہ کرو، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بہت بولنے کے سبب ہماری سنی جائے گی “۔ (متی۔ 6:7) دوسری بات یہ ہے کہ دعا چپکے چپکے مانگنے میں ریا ونمائش کا بھی احتمال نہیں رہتا، حدیث میں ایسی ہی دعا کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ صحیح بخاری، صحیح مسلم دونوں میں یہ روایت آتی ہے کہ لوگ دعا چلا چلا کر مانگ رہے تھے، ان پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم جسے پکار رہے ہو وہ نہ گراں گوش ہے اور نہ کہیں دور ہے وہ تو قریب بھی ہے اور خوب سنتا بھی ہے۔ عن ابی موسیٰ الا شعری قال رفع الناس اصواتھم بالدعا فقال رسول اللہ ﷺ ایھا الناس ارجعوا علی انفسکم فانکم لاتدعون اصم ولا غائبا ان الذی تدعون سمیع قریب اور حنیفہ نے یہیں سے استدلال کیا ہے کہ نماز میں سورة فاتحہ کے بعد آمین بھی جو دعا ہی کی ایک شکل ہے آہستہ کہنی چاہیے، وقد استدل اصحاب ابی حنفیۃ بھذا علی ان اخفاء امین اولی من الجمربھا لانہ دعاء (قرطبی) وفی ذلک دلیل علی ان اخفاء امین من قراء ۃ فاتحہ الکتب فی الصلوۃ افضل من اظھارہ لانہ دعاء (جصاص) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت میں اشارہ ہے طریق جلوت وخلوت یا عبادات جوارح و عبادات قلب کی طرف۔
Top