Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 80
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَلُوْطًا : اور لوط اِذْ : جب قَالَ : کہا لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم سے اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ : کیا آتے ہو بیحیائی کے پاس (بیحیائی کرتے ہو) مَا سَبَقَكُمْ : جو تم سے پہلے نہیں کی بِهَا : ایسی مِنْ اَحَدٍ : کسی نے مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
اور (ہم نے) لوط (کو بھی بھیجا) جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ارے ! ،106 ۔ تم تو ایسا بےحیائی کا کام کرتے ہو کہ تم سے پہلے اسے دنیا جہان والوں میں سے کسی نے نہیں کیا تھا،107 ۔
106 ۔ حضرت لوط (علیہ السلام) بن حاران بن تارح (آزر) حضرت ابراہیم خلیل (علیہ السلام) کے حقیقی بھتیجے تھے۔ توریت میں ان کا ذکر بڑی تفصیل سے ہے۔ ملاحظہ ہو کتاب پیدائش باب 1 1 تا باب 19 ۔ البتہ محرفین توریت نے اپنے حسب معمول بعض بہت ہی گندی حرکتیں بھی حضرت کی جانب منسوب کردی ہیں۔ باب 19 ۔ آپ نے جس ملک کو اپنا وطن بنالیا تھا۔ وہ شرق یردن یعنی شام کا جنوبی علاقہ تھا۔ جو دریائے یردن کے اردگرد ہے۔ لقومہ “۔ عربی کا لفظ ” قوم “ یہاں اردو کے لفظ ” امت “ کے مفہوم میں ہے۔ عام قاعدہ اس سارے سیاق میں امت اور نبی کے درمیان ” بھائی “ کا رشتہ بیان کرنے کا ہے لیکن حضرت لوط (علیہ السلام) کی بعثت اپنی برادری یا وطن والوں کی جانب نہیں ہے بلکہ ایک دوسری قوم کی جانب ہوئی تھی۔ اس لیے وہ عام طرز بیان یہاں حذف کردیا گیا۔ قرآن سے زیادہ ان نازک تاریخی حقائق کی رعایت اور کون کرسکتا ہے ؟ آپ جس قوم کی جانب بھیجے گئے۔ یہ لوگ ملک شام کے جنوب میں دریائے یردن کی وادی میں آباد تھے، سدوم، عمورہ کا یہ علاقہ خوب سرسبز و شاداب تھا۔” یردن کی ساری ترائی۔۔ خداوند کے باغ اور مصر کے ملک کی مانند خوب سیراب تھی “ (پیدائش۔ 13: 10) 107 ۔ مراد اغلام جیسے گندے عمل سے ہے۔ اسکی طرف رغبت وکشش ہونا تو درکنار، تصور ہی سے ہر فطرت سلیم رکھنے والے کو ایک طبعی کراہت پیدا ہوتی ہے۔ جو جگہ تمامتر گندہ فضلہ کے لیے ہو اور جو عضو بجزاخراج فضلات کے اور کسی ضرورت سے اندر کی جانب کھلتا ہی نہیں اسے محل شہوت سمجھ لینا اور اسے لطف ونشاط کا آلہ بنالینا اپنی حددرجہ غلاظت پسندی اور گھناؤنے پن کا ثبوت دینا ہے۔ (آیت) ” ماسبقکم بھا من احد من العلمین “۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ گو بعد کو (مثلا یونانی تہذیب کی ترقی کے زمانہ میں) اس شیطانی حرکت کو بھی بڑی ترقی ہوئی۔ اور آج تو یہ یورپی اور امریکی تہذیب کا جزولاینفک ہے اور پورا زور کتابوں اور رسالوں کے ذریعہ سے لگایا جارہا ہے کہ اسے بجائے غیر طبعی کے ایک طبعی تحریک قرار دیا جائے لیکن قوم لوط (علیہ السلام) سے قبل اس کے وجود کاتاریخ سے بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے حضرت لوط (علیہ السلام) کے قول میں دہری دہری ملامت اپنی قوم پر آگئی یعنی ایک تو یہ کہ ایسی شدید بدکاری میں مبتلا ہو اور پھر یہ کہ اس کے موجد بھی تم ہی ہو، یہ بھی تو نہیں کہ کسی اور کو دیکھ کر تم نے سیکھا ہو۔ کانہ وبخھم اولا باتیان الفاحشۃ ثم باختراعھا فانہ اسوأ (بیضاوی) (آیت) ” من احد من العلمین “۔ پہلا من زائد ہے تاکید نفی واستغراق معنی کے لیے ہے۔ اور دوسرا من تبعیض کے لیے ہے۔ من اولی زائدۃ لتوکید النفی افادۃ معنی الاستغراق والثانیۃ للتبعیض (کشاف) من لا ستغراق الجنس (قرطبی) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ قوم لوط (علیہ السلام) کی بدکاری کے ساتھ اس کے عدم مسبوقیت کو لانا دلیل ہے اس پر کہ منکرات پر محض عمل سے کہیں بڑھا ہوا درجہ ایجاد منکرات کا ہے۔ تو اسی پر کہ منکرات پر محض عمل سے کہیں بڑھا ہوا درجہ ایجاد منکرات کا ہے۔ تو اسی پر بدعت کے درجہ شناعت کا قیاس کرلیا جائے۔
Top