Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 93
فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ١ۚ فَكَیْفَ اٰسٰى عَلٰى قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ۠   ۧ
فَتَوَلّٰي : پھر منہ پھیرا عَنْهُمْ : ان سے وَقَالَ : اور کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم لَقَدْ : البتہ اَبْلَغْتُكُمْ : میں نے پہنچا دئیے تمہیں رِسٰلٰتِ : پیغام (جمع) رَبِّيْ : اپنا رب وَنَصَحْتُ : اور خیر خواہی کی لَكُمْ : تمہاری فَكَيْفَ : تو کیسے اٰسٰي : غم کھاؤں عَلٰي : پر قَوْمٍ : قوم كٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اس وقت وہ ان سے منہ موڑ کر چلے اور بولے اے میری قوم والو، میں نے تو تمہیں اپنے پروردگار کے پیام پہنچا دیئے تھے اور تمہاری خیر خواہی کی تھی، تو اب میں کیوں کر غم کروں کافر لوگوں پر ؟ ،127 ۔
127 ۔ تم پر یہ مصیبت تو اپنے ہاتھوں کی لائی ہوئی ہے۔ اور میرے ہر طرح سمجھانے کے بعد اسے تم اپنے اوپر لائے ہو، اب تم میری ہمدردی کے مستحق ہی کب باقی رہے۔ (آیت) ” فتولی عنھم وقال “۔ یہ ذکر اس وقت کا ہے جب قوم مبتلائے عذاب ہوچکی تھی۔ (آیت) ” ابلغتکم رسلت ربی “۔ یعنی میں پیام رسانی کا حق ادا کرچکا (آیت) ” نصحت لکم “۔ یعنی فرط شفقت سے تمہیں ہر طرح سمجھا بجھا کر دیکھ چکا (آیت) ” علی قوم کفرین “۔ بجائے (آیت) ” علیھم “۔ کے (آیت) ” قوم کفرین “۔ کی تصریح نے اسے صاف کردیا کہ عدم استحقاق تاسف وہمدردی کفر اختیاری ہی کی بناء پر ثابت ہوا۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ مبغوضین مستحق ترحم نہیں ہوتے۔
Top