Tafseer-e-Majidi - Al-Anfaal : 47
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بَطَرًا وَّ رِئَآءَ النَّاسِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ
وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجانا كَالَّذِيْنَ : ان کی طرح جو خَرَجُوْا : نکلے مِنْ : سے دِيَارِهِمْ : اپنے گھروں بَطَرًا : اتراتے وَّرِئَآءَ : اور دکھاوا النَّاسِ : لوگ وَيَصُدُّوْنَ : اور روکتے عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا : سے۔ جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں مُحِيْطٌ : احاطہ کیے ہوئے
اور ان لوگوں کی مثل نہ ہو جو اپنے گھروں سے تو اتراتے ہوئے اور لوگوں کے دکھلانے کے لئے نکلے اور (لوگوں کو) اللہ کی راہ سے روکتے تھے درآنحالیکہ اللہ انکے اعمال کو احاطہ میں لیے ہوئے ہیں،73 ۔
73 ۔ (اور وقت مناسب پر جزاء اعمال بھی دے گا) (آیت) ” الذین خرجوا “۔ الخ مراد قریش کے لشکریان بدر میں جو ناحق و باطل کی راہ میں حمیت جاہلی کے علمبردار ہو کر لڑنے کو نکلے تھے۔ (آیت) ” بطرا “۔ اللہ کی طرف سے جب نعمتوں کا فیضان ہونے لگتا ہے تو اب بندہ کے لیے دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ انہیں اللہ ہی کی جانب منسوب کرتا رہے اور اسی کی رضا جوئی میں انہیں لگائے اور اس کا نام شکر ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ان سے اپنے معاصرین کے مقابلہ میں فخر کا کام لینے لگے یہی بطر ہے قال الزجاج البطر الطغیان فی النعمۃ والتحقیق ان النعم اذا کثرت من اللہ علی العبد فان صرفھا الی مرضاتہ وعرف انھا من اللہ تعالیٰ فذک ھو الشکر اما ان توسل بھا الی المفاخرۃ علی الاقران والمکاثرۃ علی اھل الزمان فذک ھو البطر (کبیر) ۔ (آیت) ” ورء آء الناس “۔ رئاء کا مفہوم ہے کہ جو شے واقعۃ زشت ہو اسے خوشنما کرکے ظاہر کرنا، الرئاء عبارۃ عن القصد الی الظھار الجمیل مع ان باطنہ یکون قبیحا (کبیر) امام رازی (رح) نے یہاں سوال یہ پیدا کیا ہے کہ بطر اور رئاء تو اسم ہیں اور یصدون فعل ہے تو یہ بات کیا ہے کہ ایک ہی فقرہ میں ایک وصف تو اسم کے ذریعہ سے ظاہر کیا گیا اور دوسرا فعل کے ذریعہ سے اور پھر خود ہی جرجانی نحوی وادیب کے حوالہ سے جواب دیا ہے کہ اسم دلالت کرتا ہے وصف کے استمرار وتمکین یا مستقل کیفیت پر اور فعل اسکی وقتی اور عارضی حالت پر، تو یہاں چونکہ فخرونمائش قریش کا وصف مستقل تھا، اس کے لیے اسم لایا گیا، اور مسلمانوں سے مقابلہ ومقاتلہ وقتی وعارضی کیفیت تھی اس کا اظہار فعل سے کیا گیا اور یہ بلاغت قرآنی کا ایک اعجاز ہے۔ (آیت) ” بطر اورء آ ء الناس “۔ یہ فخر ونمائش، غرور اور اتراہٹ کے اوصاف آج کی ” مہذب “ فرنگی قوموں اور ان کے لشکروں کی زرق برق وردیوں، ان کے جھنڈوں اور نشانوں، ان کے فخریہ دعو وں اور اعلانوں ان کے توپوں اور جہازوں، ان کے طیاروں اور آبدوزوں، ان کی بمباریوں اور ان کے جوہری بموں پر کتنے صادق آتے ہیں !
Top