Tafseer-e-Majidi - Al-Anfaal : 50
وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ یَتَوَفَّى الَّذِیْنَ كَفَرُوا١ۙ الْمَلٰٓئِكَةُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَ اَدْبَارَهُمْ١ۚ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ
وَلَوْ : اور اگر تَرٰٓي : تو دیکھے اِذْ : جب يَتَوَفَّى : جان نکالتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے يَضْرِبُوْنَ : مارتے ہیں وُجُوْهَهُمْ : ان کے چہرے وَاَدْبَارَهُمْ : اور ان کی پیٹھ (جمع) وَذُوْقُوْا : اور چکھو عَذَابَ : عذاب الْحَرِيْقِ : بھڑکتا ہوا (دوزخ)
اور کاش آپ دیکھیں جب فرشتے (ان) کافروں کی جان قبض کرتے جاتے ہوں، مارے جاتے ہوں ان کے منہ پر اور ان کی پشتوں پر اور (کہتے جاتے ہوں) کہ (اب) آگ کی سزا کا مزہ چکھو،79 ۔
79 ۔ یعنی یہ تکلیفیں تو صرف نزع وسکرات کی ہیں، ابھی کیا ہے ابھی کیا ہے ابھی آگے چل کر عذاب جہنم کو برداشت کرنا ہے۔ اس سلسلہ میں یہ واضح رہے کہ قرآن مجید نے نزع وسکرات کی یہ ہولناک تفصیلات جہاں بھی بیان کی ہیں وہاں یہ تصریح بھی کردی ہے کہ یہ کافروں اور دشمنان دین کے لئے ہیں، مطلق موت کا جہاں ذکر ہے وہاں الفاظ ” غمرات “ یا ” سکرۃ “ وغیرہ ایسے رکھے ہیں جن کا مفہوم لازمی طور پر تکلیف ہی کا نہیں بلکہ مطلق غفلت، غشی اور بےہوشی کو شامل ہے۔ متکلمین نے آیت سے یہ استنباط بھی کیا ہے کہ انسان جس شے کا نام ہے وہ اس جسم سے الگ ہے اور اس کا اطلاق روح پر ہوتا ہے۔ قال الواحدی ھذا یدل علی ان الانسان شیء مغائر لھذا لجسد (کبیر) (آیت) ” یضربون وجوھھم وادبارھم “۔ سے امام رازی (رح) نے یہ لطیف نکتہ بھی نکالا ہے کہ کافر کی روح جب دنیا سے روانہ ہوتی ہے تو دنیا کے چھوٹنے کا تو اسے صدمہ ہوتا ہی ہے ادھر آخرت پر جب نظر کرتی ہے تو ادھر بھی تاریکی ہی تاریکی نظر آتی ہے اس طرح اس پر آگے اور پیچھے دونوں طرف سے گویا دہری مارپڑتی ہے۔ فیہ معنی اخرا لطف منہ وھو ان روح الکافر اذا خرج من جسدہ فھو معرض عن عالم الدنیا مقبل علی الاخرۃ وھو لکفرہ لایشاھد فی عالم الاخرۃ الاالظلمات فبسبب مفارقتہ لعالم الدنیا تحصل لہ الالام بعد الالام وبسبب اقبالہ علی الاخرۃ مع عدم النور والمعرفۃ ینتقل من ظلمات الی ظلمات فھا تان الجھتان ھما المراد من قولہ یضربون وجوھھم وادبارھم۔
Top