Tafseer-e-Majidi - Al-Anfaal : 53
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ یَكُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰى قَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ١ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّ : اس لیے کہ اللّٰهَ : اللہ لَمْ يَكُ : نہیں ہے مُغَيِّرًا : بدلنے والا نِّعْمَةً : کوئی نعمت اَنْعَمَهَا : اسے دی عَلٰي قَوْمٍ : کسی قوم کو حَتّٰي : جب تک يُغَيِّرُوْا : وہ بدلیں مَا : جو بِاَنْفُسِهِمْ : ان کے دلوں میں وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
یہ (سب) اس سبب سے ہے کہ اللہ کسی نعمت کو جس کا انعام وہ کسی قوم پر کرچکا ہونہی بدلتا جب تک کہ وہی لوگ اس کو نہ بدل دیں، جو کچھ ان کے پاس ہے،82 ۔ اور بیشک اللہ خوب سننے والا ہے، خوب جاننے والا ہے،83 ۔
82 ۔ یعنی جب تک کوئی قوم خود اپنی حالت اس سے مختلف نہ کرلے جو نزول نعمت کے وقت اس کی تھی اور اپنے اندر بجائے ایمان وطاعت کے کفر وخباثت پیدا کرلے، نعمت اور خبث کا اجتماع خلاف حکمت الہی ہے۔ (آیت) ” ذلک “۔ یعنی یہی قانون جو اوپر بیان ہوا۔ یہ کہ بےجرم شدید اللہ کسی کو سزا نہیں دیتا اور جب سزا دینا چاہتا ہے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا۔ (آیت) ” نعمۃ “۔ کا لفظ عام ہے دنیوی واخروی، مادی، روحانی، انفرادی وقومی سب ہی طرح کی نعمتیں اس میں آگئیں۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت کے عموم میں وہ صورت بھی داخل ہے کہ سالک سے جب کوئی معصیت سرزد ہوجاتی یا کوئی طاعت ترک ہوجاتی ہے تو اس سے انوار وبرکات مقصودہ منقطع ہوجاتے ہیں۔ 83 ۔ چناچہ وہ ہر تغیرقولی کو سن رہا ہے اور ہر تغیر فعلی کو جان رہا ہے۔
Top