Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 106
وَ اٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ اِمَّا یُعَذِّبُهُمْ وَ اِمَّا یَتُوْبُ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
وَاٰخَرُوْنَ : اور کچھ اور مُرْجَوْنَ : وہ موقوف رکھے گئے لِاَمْرِ اللّٰهِ : اللہ کے حکم پر اِمَّا : خواہ يُعَذِّبُھُمْ : وہ انہیں عذاب دے وَاِمَّا : اور خواہ يَتُوْبُ عَلَيْهِمْ : توبہ قبول کرلے ان کی وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور کچھ اور لوگ (بھی) ہیں (ان کا معاملہ) اللہ کا حکم آنے تک ملتوی خواہ وہ انہیں سزا دے اور خواہ وہ ان کی توبہ قبول کرے،194۔ اور اللہ بڑا علم والا ہے بڑا حکمت والا ہے،195۔
194۔ (شرائط قبول توبہ کے نہ موجود اور موجود ہونے کی بنا پر۔ عدم اخلاص واخلاص کی بنا پر) ملاحظہ ہو حاشیہ 188 ؁۔ اب بیان مومنین کے ایک دوسرے طبقے کا ہورہا ہے۔ یہ لوگ بھی کاہلی اور سہل انگاری ہی کی بنا پر غزوۂ تبوک میں شرکت سے محروم رہ گئے تھے، ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی واپسی پر نہ تو ایک طرف منافقین کی طرف کچھ عذرات تراشے، لیکن دوسری طرف تابئین صادقین کی طرح یہ بھی نہ کیا کہ اپنے کو ستون سے باندھ دیتے یا کوئی اور سزا اپنے کو دینے لگتے، انہوں نے خدمت اقدس میں حاضری دے کر محض سیدھی اور سچی بات عرض کردی، انہوں جواب ملا کہ وحی الہی کا انتظار کرو، جیسا بھی حکم تمہارے باب میں نازل ہو۔ ان لوگوں کا اپنی کوتاہی پر نادم ہونا تو ظاہر ہی ہے، لیکن آیت سے یہ بھی ظاہر ہوجاتا ہے کہ قبول توبہ کے لئے محض ندامت کافی نہیں جب تک کہ امکانی تدارک کا بھی سامان نہ ہو، ذلک یدل علی ان الندم وحدہ لایکون کافیا فی صحۃ التوبۃ (کبیر) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ مرید کے معاملہ کو بعض اوقات خوف وامید کے درمیان معلق ہی چھوڑ دینا قرین مصلحت ہوتا ہے اس کے عذر کو نہ صریحا قبول کیا جاتا ہے کہ اس سے نصیحت کا اثر ضعیف ہوجاتا ہے اور نہ صریحا رد کیا جاتا ہے کہ اس سے پہلے تو حش پھر مایوس پھر بعد پیدا ہوجاتا ہے اور یہ سب اس کے لئے مضر ہیں، کچھ روز تک معلق رہنے میں اسی کی بہت سی مصلحتیں ہوتی ہیں۔ (آیت) ” اما “۔ کلمہ تردد ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ تردد حق تعالیٰ کی طرف سے نہیں، وہاں تو ہر فیصلہ قطعی ہے، لفظ کا استعمال محاورۂ انسانی کے مطابق ہے اور بندوں کو یہ تعلیم ملی ہے کہ وہ صرف حالت امید میں رہیں۔ واللہ عالم بمصیر الاشیاء ولکن المخاطبۃ للعباد علی ما یعرفون اے لیکن امرھم عندکم علی الرجاء لانہ لیس للعباد اکثر من ھذا (قرطبی) 195۔ چناچہ وہ سب کے اخلاص، درجہ اخلاص وعدم اخلاص سے بھی خوب واقف ہے اور جیسا بھی مقتضاء حکمت ہو، وہ بلاتوبہ یا بعد توبہ معاف بھی کرتا رہتا ہے۔
Top