Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 108
لَا تَقُمْ فِیْهِ اَبَدًا١ؕ لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِ١ؕ فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ
لَا تَقُمْ : آپ نہ کھڑے ہونا فِيْهِ : اس میں اَبَدًا : کبھی لَمَسْجِدٌ : بیشک وہ مسجد اُسِّسَ : بنیاد رکھی گئی عَلَي : پر التَّقْوٰى : تقوی مِنْ : سے اَوَّلِ : پہلے يَوْمٍ : دن اَحَقُّ : زیادہ لائق اَنْ : کہ تَقُوْمَ : آپ کھڑے ہوں فِيْهِ : اس میں فِيْهِ : اس میں رِجَالٌ : ایسے لوگ يُّحِبُّوْنَ : وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ يَّتَطَهَّرُوْا : وہ پاک رہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحِبُّ : محبوب رکھتا ہے الْمُطَّهِّرِيْنَ : پاک رہنے والے
آپ اس میں کبھی بھی نہ کھڑے ہوں،198۔ (البتہ جس) مسجد کی بنیاد تقوی پر اول روز سے پڑی ہے وہ (واقعی) اس لائق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں،199۔ اس میں (ایسے) آدمی ہیں کہ وہ خوب پاک رہنے کو پسند کرتے ہیں، اور اللہ خوب پاک ہونے والوں کو پسند کرتا ہے،200۔
198۔ (نماز کے لیے) اے لا تقم فیہ للصلاۃ (قرطبی) یہ مسجد ضرار تو صرف صورۃ مسجد تھی ورنہ حقیقۃ تو عداوت اسلام کے لیے ایک کمین گاہ تھی جیسے کہ ابھی قرآن مجید تصریح کرچکا ہے، فقہاء نے اس سے یہ نکالا ہے کہ ہر ایسی مسجد جس کی بنیاد معصیت اور مخالفت مومنین پر ہو گرا دینے کے قابل ہے۔ فیہ الدلالۃ علی ان المسجد المبنی لضرار المو منین والمعاصی لایجوز القیام فیہ وانہ یجب ھدمہ (جصاص) بعض نے لاتقم سے مجاز مراد لی ہے۔ یعنی کسی قسم کا التاف ونصرت اس عمارت اور اس کے بانیوں کی جانب نہ کریں۔ اے لاتنصرہ ولا تلتفت الیہ ولا تکن معھم (جصاص) محض نام یانیت جبکہ حقیقت سے خالی ہو ہرگز کسی حکم شرعی پر مؤثر نہیں ہوسکتا، چناچہ نام اس عمارت کا بھی مسجد ہی تھا تاہم چونکہ حقیقت مسجدی سے بالکل خالی تھی اس لیے قابل توقیر واحترام تو کیا سمجھی جاتی الٹے گرا دیئے جانے اور جلا دیئے جانے کے قابل سمجھی گئی، چناچہ احادیث میں بہ تصریح آتا ہے کہ آپ ﷺ نے صحابہ کو بھیج کر اسے منہدم کرا دیا اور اس میں آگ لگوا دی۔ اور یہی حکم ہر خلاف شریعت رسم کا ہے۔ خواہ اس کا انتساب اسمی کسی ولی یا کسی نبی کی جانب ہو۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اس دلیل ہے کہ امر مکروہ شرعی کے لیے سبب بننے سے بھی تحرز ضروری ہے۔ 199۔ (اور نماز پڑھا کریں) (آیت) ” لمسجد “۔ الخ یعنی مسجد قبا۔ لام ابتداء کا ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ل قسم کا ہے۔ اللام لام الابتداء (معالم) وقیل لام القسم تقدیرہ واللہ مسجد اسس (معالم) (آیت) ” احق ان تقوم فیہ “۔ مرشدی تھانوی (رح) نے فرمایا کہ ایسی عمارت سے جس کی بنیاد تقوی پر ہوصفائے وقت وطیب حال وذوق وجدان کا اثر پیدا ہوتا ہے برخلاف اس کے جو خلاف تقوی پر مبنی ہوگی اس میں کدورت اور تفرقہ اور قبض کا اثر نفس میں پیدا ہوتا ہے۔ ” مسجد ضرار “۔ کے لیے منافقین نے حضور ﷺ سے درخواست کی تھی کہ غزوۂ تبوک سے واپسی پر آپ ایک بار یہاں نماز پڑھ لیں تو بڑی برکت حاصل ہوجائے اس کا جواب اوپر مل چکا اور مسجد قبا کے لیے یہ مدح بلادرخواست ارشاد ہوگئی۔ فقہاء نے آیت سے متعدد مسئلے نکالے ہیں۔ مثلا یہ کہ بعض عمارتیں نماز کے لیے دوسری عمارتوں سے افضل ہوتی ہیں۔ اور بعض میں نماز پڑھنا ممنوع ہوتا ہے ھذا یدل علی ان بعض الاماکن قدیکون اولی بفعل الصلوۃ من بعض وان الصلوۃ قد تکون منھیۃ عنھا فی بعضھا ویدل علی فضیلۃ الصلوۃ فی المسجد بحسب ما بنی علیہ فی الاصل (جصاص) 200۔ (پس مسجد قبا والے تو عین مقام محبوبیت پر ٹھیرے) فقہاء مفسرین نے لکھا ہے کہ اہل مسجد کی فضیلت خود مسجد کی اور اس میں نماز کی فضیلت کی دلیل ہے۔ فیہ الدلالۃ علی ان فضیلۃ اھل المسجد فضیلۃ للمسجد واللصلاۃ فیھا (جصاص) بعض حدیثوں میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس سے مراد مسجد نبوی ہے تو یہ ارشاد نبوی ﷺ اس تفسیر قرآنی کے منافی ذرا بھی نہیں۔ مسجد قبا کا مدلول ہونا تو بہ عبارت النص ہے اور مسجد نبوی کا مدلول ہونا بدلالۃ النص ہے یعنی جب صحابہ متقین کے بانی ہونے سے مسجد قباء اتنی مقبول ٹھیری تو مسجد نبوی کے بانی امام المتقین خود حضور ﷺ سرور عالم تھے وہ ظاہر ہے کہ اس کی مصداق بدرجہ اولی ہوگی، فقہاء مفسرین نے آیت کے عموم الفاظ سے یہ مطلب نکالا ہے کہ ہر وہ مسجد جو جائز طور پر بنائی جائے اور ہر وہ نمازی جو طہارت کو لازم ومحبوب بنائے، اس خطاب کے تحت میں شامل ہیں اس لیے کہ حکم وصف پر لگایا گیا ہے نہ کہ ذات پر۔۔۔ اور رجال سے بھی مرد ہی مخصوص نہیں، مرد عورت سب اس حکم میں داخل ہیں۔ (آیت) ” فیہ رجال یحبون ان یتطھروا “۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اس میں اشارہ ہے کہ صالحین کی صحبت کو بھی اثر عظیم ہے (جیسا کہ اس مسجد میں قیام کی ترجیح کی علت کے موقع میں اس کو فرمادیا گیا) غرض یہ کہ حصول جمعیت میں مکان اور اخوان کی رعایت ضروری ہے اور اہل طریق سے منقول ہے کہ اس کے ساتھ زمانہ کی رعایت کو بھی دخل ہے۔
Top