Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 109
اَفَمَنْ اَسَّسَ بُنْیَانَهٗ عَلٰى تَقْوٰى مِنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٍ خَیْرٌ اَمْ مَّنْ اَسَّسَ بُنْیَانَهٗ عَلٰى شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهٖ فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
اَفَمَنْ : سو کیا وہ جو اَسَّسَ : بنیاد رکھی اس نے بُنْيَانَهٗ : اپنی عمارت عَلٰي : پر تَقْوٰى : تقوی (خوف) مِنَ اللّٰهِ : اللہ سے وَرِضْوَانٍ : اور خوشنودی خَيْرٌ : بہتر اَمْ : یا مَّنْ : جو۔ جس اَسَّسَ : بنیاد رکھی بُنْيَانَهٗ : اپنی عمارت عَلٰي : پر شَفَا : کنارہ جُرُفٍ : کھائی ھَارٍ : گرنے والا فَانْهَارَ : سو گر پڑی بِهٖ : اسکو لے کر فِيْ : میں نَارِ جَهَنَّمَ : دوزخ کی آگ وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
سوآیا وہ شخص جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ کے تقوی اور رضامندی پر رکھی وہ بہتر ہے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد کسی گھاٹی کے کنارہ پر رکھی جو گرنے ہی کو ہے،201۔ پھر وہ (عمارت) اس کو لے کر آتش دوزخ میں گر پڑی اور اللہ ظالم لوگوں کو راہ نہیں دکھاتا،202۔
201۔ مراد اس سے اغراض باطلہ کفریہ ہیں۔ تشبیہ ناپائداری بےثباتی، کمزوری میں دی گئی ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ دو عمارتیں ہیں ایک کی بنیاد تقوی اور رضائے الہی پر ہے اور دوسری کی معصیت وکفر پر ہے۔ پہلی معزز ہے اور باقی رکھنے کے قابل، دوسری ذلیل ہے اور گرادیئے جانے کے قابل ہے۔ وحاصل الکلام ان احد البنائین قصد بانیہ ببناۂ تقوی اللہ ورضوانہ والبناء الثانی قصد بانیہ ببناۂ المعصیۃ والکفر فکان البناء الاول شریفا واجب الابقاء وکان الثانی خبیثا واجب الھدم (کبیر) 202۔ یعنی ان کو جو نام دین کا لے کر طرح طرح کے مفسدہ دین ہی میں برپا کرتے رہتے ہیں۔ فانھار بہ۔ ضمیر بانی عمارت کی طرف سے جو اس میں رہا کرتا تھا۔ اے بالبانی (معالم) اے الموسس البانی (بحر) مفسرین کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ یہ بعینہ حقیقت کا بیان ہے یعنی وہ مسجد ضرار واقعۃ اسی طرح دوزخ میں گرا دی گئی، لیکن بہتوں نے یہ بھی کہا ہے یہ بیان صرف مثال و تشبیہ کے طور پر ہے کہ ہر ایسے کام کا جس کی بنیاد اخلاص پر نہیں بلکہ کفر ونفاق پر ہوتی ہے، خاتمہ جہنم وہلاکت ہی پر ہوتا ہے۔ قیل ھذا ضرب مثل اے من اسس بنیانہ علی الاسلام خیر ام من اسس بنیانہ علی الشرک والنفاق وبین ان بناء الکافر کبناء علی شفا جرف ھار یتھور اھلہ فی جھنم (بحر) واختار غیر واحد ان معنی الایۃ افمن اسس بنیان دینہ علی قاعدۃ محکمۃ ھی التقوی وطلب الرضا بالطاعۃ خیر ام من اسس علی قاعدۃ ھی اضعف القواعد وارخاھا فادی بہ ذلک لخورہ وقلۃ استمسا کہ الی السقوط فی النار (روح) فقہاء مفسرین نے آیت سے یہ بھی نکالا ہے کہ جس کام کی ابتداء اللہ کی رضا جوئی اور اخلاص نیت سے کی جاتی ہے اسے پایداری نصیب ہوتی ہے۔ اور اس میں برکت ہوتی ہے۔ فی ھذہ الایۃ دلیل علی ان کل شئی ابتدیء بنیۃ تقوی اللہ والقصد لوجھہ الکریم فھو الذی یبقی ویسعدبہ صاحبہ ویصعد الی اللہ ویرفع الی (قرطبی)
Top