Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 1
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ
بَرَآءَةٌ : بیزاری (قطعِ تعلق) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖٓ : اور اس کا رسول اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے عٰهَدْتُّمْ : تم سے عہد کیا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
سورة توبہ مدنی ہے : اس میں 129 آیتیں ہیں : اور 16 رکوع ہیں1) دست برداری ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکین (کے عہد) سے جن سے تم نے عہد کر رکھا تھا،2 ۔
1 ۔ قرآن مجید کی 114 سورتوں میں سے صرف یہی ہے، جس کے شروع میں بسم اللہ درج نہیں۔ حضرت عثمان ؓ کے وقت جب قرآن اپنی بالکل آخری شکل میں مرتب ہونے لگا تو اس سورت میں صحابہ میں اختلاف پیدا ہوا کہ آیا یہ مستقل سورت ہے یا سورة انفال کا جزء۔ دوسری سورتوں کی طرح اس سورت میں بسم اللہ کی تصریح رسول اللہ ﷺ سے پائی نہ گئی۔ حضرت عثمان ؓ نے یہ فیصلہ کرکے دونوں احتمالات کی رعایت کرلی کہ اسے لکھا تو جائے بہ حیثیت مستقل سورت کے البتہ اس کے اور اس کے ماقبل کے درمیان فصل بہ صورت بسم اللہ نہ چھوڑا جائے۔ فقیہ ابن العربی مالکی نے لکھا ہے کہ صحابہ کرام کا یہ فیصلہ خود اس کی دلیل ہے کہ نص عدم موجودگی میں قیاس شرعی ایک مستقل حجت ہے۔ چناچہ انہوں نے سورة برآء ۃ کے مضمون کو سورة انفال سے مشابہ پاکر ایک کو دوسرے سے ملحق کردیا، اور جب خود تدوین قرآن میں قیاس شرعی سے کام لیا گیا تو دوسرے مسائل کا ذکرہی کیا۔ ھذا دلیل علی ان القیاس اصل فی الدین الاتری الی عثمان واعیان الصحابۃ کیف لجؤا الی قیاس الشبہ عند عدم النص ورأوا ان قصۃ براءۃ شبیھۃ بقصۃ الانفال فالحقوھا بھافاذا کان اللہ تعالیٰ قد بین دخول القیاس فی تالیف القران فما ظنک بسائر الاحکام (قرطبی) ” اور یہ جو حضرت علی ؓ سے منقول ہے کہ بسم اللہ امان ہے اور یہ سورة رفع امان کے لئے آئی ہے، سو یہ علت نہیں، بہ طور نکتہ کے ایک حکمت ہے “۔ (تھانوی) بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ اہل عرب جب اپنے معاہدوں کو منسوخ کرتے تھے تو اس منسوخی کی تحریروں پر بسم اللہ نہیں لکھتے تھے، سورة براءۃ میں چونکہ معاہدہ کی منسوخی ہی کا اعلان ہے اس لیے اس میں بھی مذاق عرب کی رعایت رکھی گئی اور حضرت علی ؓ نے جب اسے پڑھ کر سنایا تو شروع میں بسم اللہ نہ پڑھی۔ قیل کان من شان العرب فی زمانھا فی الجاھلیۃ اذا کان بینھم وبین قوم عھد فارادوا نقضہ کتبوا الیھم کتبا ولم یکتبوا فی بسملۃ فلما نزلت سورة براءۃ بنقض العھد الذی کان بین النبی ﷺ والمشرکین بعث بھا النبی ﷺ علیا فقراھا علیھم فی الموسم ولم یبسمل فی ذلک علی ما جرت بہ عادتھم فی نقض العھد میں ترک البسملۃ (قرطبی) 2 ۔ (بلاتعیین مدت) مسلمانوں نے مشرک قبائل عہد سے معاہدے کر رکھے تھے۔ بعض سے میعادمعین کیلئے بعض سے غیرمیعادی۔ یہاں انہی آخرالذکرمعاہدوں کی منسوخی کا اعلان ہو رہا ہے۔ براءۃ کے معنی ترک موالات ورفع امان کے ہیں۔ البراء ۃ ھی قطع الموالاۃ وارتفاع العصمۃ وزوال الامن (جصاص) معنی البراء ۃ انقطاع العصمۃ (کبیر) مشرکین عرب کی مسلسل عہد شکنیوں کے بعد اب انہیں نوٹس دیا جارہا ہے کہ اتنی مدت کے بعد تم سے سارے معاہدہ ختم، بس اب تلوار ہی تمہارا فیصلہ کرے گی، براءۃ کی تنوین تفخیم کے لئے ہے۔ یعنی کامل انقطاع، مکمل دستبرداری۔ التنوین للتفخیم (روح) (آیت) ” الی الذین عھدتھم “۔ صیغۂ جمع۔ حالانکہ معاہدہ کرنے والے صرف رسول اللہ ﷺ تھے۔ اس لئے ارشاد ہوا ہے کہ بہ حیثیت آمروحاکم آپ ﷺ کا فعل حکما ساری امت کا فعل تھا۔ ولم یعاھدھم الاالنبی ﷺ وحدہ ولکنہ کان الامر والحاکم وکل ما امر بہ اواحکمہ فھو لازم للامۃ منسوب الیھم محسوب علیھم (ابن العربی) یعنی الی الذین عاھدھم رسول اللہ ﷺ لانہ کان المتولی للعھود و اصحابہ کلھم بذلک راضون وکانھم عاقدوا واعاھدوا فنسب العقد الیھم (قرطبی)
Top