Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 25
لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِیْ مَوَاطِنَ كَثِیْرَةٍ١ۙ وَّ یَوْمَ حُنَیْنٍ١ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَیْئًا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَۚ
لَقَدْ : البتہ نَصَرَكُمُ : تمہاری مدد کی اللّٰهُ : اللہ فِيْ : میں مَوَاطِنَ : میدان (جمع) كَثِيْرَةٍ : بہت سے وَّ : اور يَوْمَ حُنَيْنٍ : حنین کے دن اِذْ : جب اَعْجَبَتْكُمْ : تم خوش ہوئے (اترا گئے كَثْرَتُكُمْ : اپنی کثرت فَلَمْ تُغْنِ : تو نہ فائدہ دیا عَنْكُمْ : تمہیں شَيْئًا : کچھ وَّضَاقَتْ : اور تنگ ہوگئی عَلَيْكُمُ : تم پر الْاَرْضُ : زمین بِمَا رَحُبَتْ : فراخی کے باوجود ثُمَّ : پھر وَلَّيْتُمْ : تم پھرگئے مُّدْبِرِيْنَ : پیٹھ دے کر
بیشک اللہ نے بہت سے موقعوں پر تمہاری نصرت کی ہے،38 ۔ اور حنین کے دن بھی جب کہ اپنی کثرت (تعداد) پر غرہ ہوگیا تھا پھر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگی کرنے لگی پھر تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے،39 ۔
38 ۔ جیسے جنگ بدر میں اور فتح مکہ کے موقع پر، اور بنو قریظہ وبنونضیر کے مقابلہ میں وقس علی ھذا۔ نصرت غیبی وتائید ایزدی کا منظر تو کہنا چاہیے کہ ہر موقع پر نمایاں رہتا تھا، علماء نے 80 ایسے موقع گنائے ہیں۔ وان ائمۃ التاریخ وعلماء المغازی نقلوا انما کانت ثمانین موطنا (بحر) حنین، طائف کے راستہ میں مکہ کی ایک وادی کا نام ہے، مکہ سے غالبا 3 میل کے فاصلہ پر، فتح مکہ کے دو ہی ہفتہ بعد یہاں مسلمانوں کا مقابلہ ہوازن اور ثقیف کے مشہور تیر انداز قبیلوں سے ہوا تھا، معرکہ کی تاریخ 6 شوال 8 ھ ؁ مطابق یکم فروری 630 ء ؁ ہے۔ 39 ۔ مسلمان فتح مکہ کے 2 ہزار طلقاء یعنی جدید العہد نو مسلموں کو ملاکر 12 ہزار کی تعداد میں تھے مسلمانوں کو قدرۃ خیال گزرا کہ آج تو ہماری جیت یقینی ہے چناچہ اول اول ہوئی بھی مسلمانوں کو فتح، مشرکین بھاگے اور مسلمان مال غنیمت پر ٹوٹ پڑے، مشرکین موقع دیکھ پلٹ پڑے، اور تیر اندازی اس غضب کی کی کہ مسلمانوں کے پیر اکھڑ گئے۔ مشرکین کے تیر انداز دستے پہاڑیوں کی آڑ میں بہترین کمین گاہوں میں چھپے بیٹھے تھے۔ مسلمانوں کو جگہ بری ملی، مووچہ جما کر صفیں قائم کرنے کا موقع نہ ملا، پہلے پیر طلقاء کے اکھڑے پھر عام مسلمانوں کے، صرف رسول اللہ ﷺ مع چند مخصوص صحابہ ابوبکر، عمر، عباس علی ابن سعد ؓ اجمعین وغیرہ کے میدان جنگ میں رہ گئے، عباس ؓ بن عبدالمطلب آپ ﷺ کے خچر کی رکاب تھامے ہوئے تھے، اور آپ ﷺ تھے کہ اپنی صداقت پر مطمئن دشمن کی طرف بڑھتے ہی جاتے تھے۔ بار بار پکار کر فرمایا انا النبی لاکذب انا ابن عبد المطلب، میں عبد المطلب کا بیٹا، نبی ہوں اس میں کچھ جھوٹ نہیں، الی عباد اللہ انی رسول اللہ۔ آخر مسلمانوں کو دوبارہ غیرت آئی، پھر سے مقابلہ شروع کیا، آسمان سے فرشتوں کی مدد نازل ہوئی مشرکین آخر بھاگ نکلے، کچھ قید ہوئے، کچھ قتل ہوئے، شرر کی تاریخ اسلام میں ہے :۔ 10 ہزار جانباز تو وہی تھے جو مدینہ سے علم اسلام کے ساتھ آئے تھے اور 2 ہزار اہل مکہ تھے ان میں بہت سے مشرک بھی تھے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اہل مکہ مفتوح ہونے کے بعد بھی مسلمان ہونے پر مجبور نہیں کئے گئے تھے (جلد اول صفحہ 92) (آیت) ” اذا اعجبتکم کثرتکم “۔ یہاں صاف بتا دیا کہ شکست کا اصل راز مسلمانوں کی خود بینی تھی، اپنی کثرت تعداد پر ناز وغیرہ، فقہاء مفسرین نے اس آیت کو بھی آیات احکام میں شمار کیا ہے۔ اور چونکہ حدیث مالک میں ذکر آیا ہے کہ اس جہاد میں صفوان مشرک بھی شریک تھا اس لئے اس سے بعض فقہی مسائل بھی مستنبط کئے ہیں۔ امام مالک کی رائے ہے کہ مشرکین کے خلاف جہاد میں مشرک سے مدد لینا جائز نہیں، بجز اس صورت کے کہ ہو مشرک خادم بن کر شریک ہوجائے۔ قال مالک ولم یکن ذلک بامر رسول اللہ ﷺ ولا اری ان یستعان بالمشرکین علی المشرکین الا ان یکونوا اخدما اونواتیۃ (قرطبی) دوسرے ائمہ فقہ ابوحنیفہ (رح) شافعی (رح) ، ثوری (رح) اوزاعی (رح) کی رائے میں جب کلمہ اسلام غالب ہورہا ہو تو اس کے لئے مشرکین سے استعانت جائز ہے۔ وقال ابوحنیفۃ والشافعی والثوری والاوزاعی لا باس بذلک اذا کان حکم الاسلام جو الغالب وانما تکرہ الاستعانۃ بھم اذا کان حکم الشرک ھو الظاہر (قرطبی) ۔
Top