Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 26
ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا وَ عَذَّبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ وَ ذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِیْنَ
ثُمَّ : پھر اَنْزَلَ : نازل کی اللّٰهُ : اللہ سَكِيْنَتَهٗ : اپنی تسکین عَلٰي : پر رَسُوْلِهٖ : اپنے رسول وَعَلَي : اور پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کی وَاَنْزَلَ : اور اتارے اس نے جُنُوْدًا : لشکر لَّمْ تَرَوْهَا : وہ تم نے نہ دیکھے وَعَذَّبَ : اور عذاب دیا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) وَذٰلِكَ : اور یہی جَزَآءُ : سزا الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اس کے بعد اللہ نے اپنی طرف سے اپنے رسول پر اور مومنین پر تسلی نازل کی،40 ۔ اور نازل کئے (ایسے) لشکر جنہیں تم دیکھ نہ سکے،41 ۔ اور (اللہ نے) کافروں کو سزا دی اور یہی کافروں کی جزا ہے،42 ۔
40 ۔ چناچہ جو ہٹ گئے تھے، وہ پھر میدان میں آکر جم گئے، (آیت) ” سکینتہ علی رسولہ “۔ مفسر تھانوی (رح) نے لکھا ہے کہ مراد اس سے مطلق تسلی نہیں، وہ تو آپ ﷺ کو اور جو صحابی آپ کے ہمراہ رہ گئے تھے انہیں حاصل ہی تھی، اور اسی بنا پر وہ ثابت قدم بھی رہے بلکہ مراد اس سے تسلی خاص ہے جس سے سب کو غلبہ کی امید ہوگئی، مرشد تھانوی نے فرمایا کہ ترک عجب نزول سکینت کا سبب ہوجاتا ہے۔ 41 ۔ (یعنی ملائکہ آسمانی) یعنی الملائکہ (مدارک) ھم الملائکۃ بلاخلاف (بحر) (آیت) ” لم تروھا “۔ سے مراد صرف اس قدر ہے کہ وہ لشکر عام طور سے انسان کے لئے غیر مرئی تھا، اگر اتفاق سے کسی صحابی کو بہ طور کرامت یا خرق عادت کوئی فرشتہ نظر آگیا تو وہ اس بیان قرآنی کے منافی نہیں، ایسے موقعوں کے لئے قرآن کا یہ انداز بیان عام ہے۔ قرآن نے یہاں اس حقیقت کو ایک بار پھر صاف کردیا کہ اصل شئے اعتماد علی اللہ ہے۔ ظاہری اسباب پر بہت زیادہ تکیہ کرلینا مہلک ہے۔ 42 ۔ چناچہ حنین میں کافروں کو شکست کی ذلت نصیب ہوئی، 70 آدمی قتل ہوئے، ہزار ہا کی تعداد میں قید ہوئے، جن میں فقط عورتیں ہی 6 ہزار تھیں، مال غنیمت میں مسلمانوں کو 24 ہزار اونٹوں اور 30 ہزار بھیڑ بکریوں کے علاوہ 4 ہزار اوقیہ چاندی بھی ہاتھ لگی اور یہاں یہ عام قانون بھی بتادیا کہ کفر کی سزا ہے ہی شکست، ذلت عذاب دنیوی ،
Top