Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 28
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا١ۚ وَ اِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً فَسَوْفَ یُغْنِیْكُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۤ اِنْ شَآءَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں الْمُشْرِكُوْنَ : مشرک (جمع) نَجَسٌ : پلید فَلَا يَقْرَبُوا : لہٰذا وہ قریب نہ جائیں الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ : مسجد حرام بَعْدَ : بعد عَامِهِمْ : سال هٰذَا : اس وَاِنْ : اور اگر خِفْتُمْ : تمہیں ڈر ہو عَيْلَةً : محتاجی فَسَوْفَ : تو جلد يُغْنِيْكُمُ : تمہیں غنی کردے گا اللّٰهُ : اللہ مِنْ : سے فَضْلِهٖٓ : اپنا فضل اِنْ : بیشک شَآءَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اے ایمان والو مشرکین تو نرے ناپاک ہیں،44 ۔ سو اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ آنے پائیں،45 ۔ اور اگر تم کو مفسلی کا اندیشہ ہو،46 ۔ سو اللہ تمہیں اگر چاہے گا اپنے فضل سے (ان سے) بےنیاز کردے گا،47 ۔ بیشک اللہ خوب جاننے والا ہے، بڑا حکمت والا ہے،48 ۔
44 ۔ (بہ لحاظ خبث عقاید) (آیت) ” نجس “۔ مراد اس نجاست سے نجاست عقاید ہے نہ کہ نجاست اعیان و اجسام۔ والمراد ذو ونجس لخبث بواطنھم و فساد عقائد ھم (روح) 45 ۔ (بہ غرض خدمت وتولیت یا بہ غرض حج و طواف وغیرہ) یعنی حدود حرم کے اندربہ غرض حج وعمرہ نہ داخل ہونے پائیں، ممانعت کا تعلق مطلق داخلہ حرم وداخلہ مسجد حرام سے نہیں۔ اے فلایحجوا ولا یعتمروا کما کانوا یفعلون فی الجاھلیۃ (مدارک) حنفی مذہب میں مشرکوں کے عام داخلہ حرم یا داخلہ مساجد کی ممانعت نہیں، اور فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ اہل کتاب بھی اس حیثیت سے مشرکین ہی کے حکم میں داخل ہیں۔ ولا یمنعون من دخول الحرم والمسجد الحرام وسائر المساجد عندنا (مدارک) حدیثوں سے تمام جزیرہ عرب کا یہی حکم ثابت ہے، مشرکین کے لئے بھی اور یہود ونصاری کے لئے بھی، چناچہ حسب وصیت آپ ﷺ کے حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں تمام جزیرۂ عرب میں اس قانون کا نفاذ ہوگیا۔ اور فقہ حنفی کی رو سے مراد اس سے قرب ودخول بہ طور توطن یا استیلاء کے ہے کہ یہ ناجائز ہے ورنہ مسافرانہ امام کی اجازت سے آنا اگر امام کے نزدیک خلاف مصلحت نہ ہومضائقہ نہیں، اور جب حرم کے اندر آنے کی اجازت دینا جائز ہے مسجد حرام بھی اسی حکم میں ہے “۔ (تھانوی (رح) (آیت) ” بعدعامھم ھذا “۔ اس سال سے مراد 9 ہجری ؁ ہے جبکہ حضرت ابوبکر ؓ کی زیر امارت حج ادا ہوا تھا۔ اس کے بعد سے مراد 10 ہجری ہے جب سے اس کا نفاذ شروع ہوا۔ سنۃ عشر قالہ قتادہ وقال ابن العربی وھو الصحیح الذی یعطیہ مقتضی اللفظ (قرطبی) اس سال کے بعد کی قید سے فقہاء حنفیہ نے یہ استنباط کیا ہے کہ نجاست اعتقادی (کفری) فی نفسہ مانع داخلہ مساجد نہیں، وفی ذالک دلالۃ علی ان نجاسۃ الکفر لا یمنع الکافر من دخول المسجد (جصاص) 46 ۔ عرب کا ملک کوئی زراعتی تو ہے نہیں باشندوں کی آمدنی کا دارومدار تجارت ہی پر رہتا ہے۔ نومسلموں کو یہ خوف پیدا ہونا بالکل قدرتی تھا کہ اگر غیر مسلموں سے معاشی وتجارتی تعلقات بھی منقطع ہوگئے تو آخر کھائیں گے پئیں گے کہاں سے ؟ یہاں اسی طرف سے اطمینان دلایا جارہا ہے۔ 47 ۔ (چنانچہ اس نے بھی یہی کردیا، اس طریقہ پر کہ، خود ان تاجروں کو مسلمان کردیا) (آیت) ” ان شآء “۔ (اگر چاہے گا) سے مقصود اس حقیقت پر متوجہ کرنا ہے کہ اس وعدہ کے پورا کرنے کے لئے کسی لمبے چوڑے سامان کی ضرورت نہیں، محض اس کی مشیت کافی ہے۔ چناچہ جب اس کی مشیت ہوئی، سارا ملک مسلمان ہوگیا۔ سامان تجارت دور دور سے بہ کثرت آنے لگا۔ بارشیں اچھی ہوئیں، پیداوار خوب ہونے لگی، فتوحات اور غنیمتوں کے دروازے کھل گئے۔ اہل کتاب وغیرہ سے جزیہ کی رقم وصول ہونے لگی، غرض مشیت کی ایک حرکت نے اسباب غناء ہر طرح کے جمع کردیئے۔ فقہاء مفسرین نے آیت سے یہ بھی استنباط کیا ہے کہ رزق کے باب میں تعلق خاطر اسباب ظاہری سے رکھنا جائز ہے اور توکل کے منافی نہیں۔ فی ھذہ الایۃ دلیل علی ان تعلق القلب بالاسباب فی الرزق جائز ولیس ذلک بمناف للتوکل (قرطبی) (آیت) ” من فضلہ “۔ سے فقہاء نے یہ نکالا ہے کہ رزق ثمرہ کوشش کا نہیں ہوتا بلکہ عطیہ خداوندی ہے۔ دلیل علی ان الرزق لیس بالاجتھاد وانما ھو من فضل اللہ تولی قسمتہ بین عبادہ (قرطبی) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت میں تعلیم ہے کہ مصلحت دنیوی کو تکمیل مصلحت دینی میں مانع نہ ہونا چاہیے اور اگر مزاحم ہو تو توکل سے علاج کرنا چاہیے۔ 48 ۔ (چنانچہ وہ اپنے علم کامل سے سب احکام کی مصلحتوں کا علم رکھتا ہے اور حکمت کاملہ سے تمہارے افلاس کے انسداد کا بھی انتظام کردے گا)
Top