Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 41
اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اِنْفِرُوْا : تم نکلو خِفَافًا : ہلکا۔ ہلکے وَّثِقَالًا : اور (یا) بھاری وَّجَاهِدُوْا : اور جہاد کرو بِاَمْوَالِكُمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِكُمْ : اور اپنی جانوں فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ ذٰلِكُمْ : یہ تمہارے لیے خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
نکل پڑو ہلکے اور بوجھل اور جہاد کرو اپنے مال سے اور اپنی جان سے اللہ کی راہ میں،79 ۔ یہ بہتر ہے تمہارے حق میں اگر تم علم رکھتے ہو،80 ۔
79 ۔ خفافا اور ثقالا دو مقابل کے لفظ ہیں، ان کی مختلف ومتعدد تفسریں آئی ہیں۔ مثلا تنگدست اور خوشحال، جوان تیز رو اور پیر سست رفتار، بیکار اور مشغول، بےسامان اور باسامان، خوشدلی سے اور بیدلی سے وغیرہا۔ اے شیباوشبانا (ابن جریر، عن الحسن) اے اغنیاء و مساکین (ابن جریر، عن قتادہ) اے مشاغیل وغیر مشاغیل (ابن جریر، عن الحکم) اے نشا طا وغیر نشاطا (ابن جریر عن ابن عباس وقتادۃ) مقصود بہر صورت عموم حکم ہے کہ جس حال میں بھی ہو جہاد کے لئے چل پڑو۔ نکل کھڑے ہو۔ ابن جریر نے متعدد تفسیریں نقل کرکے قول فیصل یہ لکھا ہے کہ خفاف کے تحت میں ہر وہ شخص داخل ہے جسے قوت، صحت، جوان عمری، خوشحالی، بےشغلی غرض کسی بنا پر آسانیاں حاصل ہوں اور ثقال کے ماتحت وہ سب آجاتے ہیں جنہیں اس کے برعکس مذکورہ بلابناؤں میں دشواریاں لاحق ہوں اور اسی کے قریب قریب ابن کثیر نے بھی لکھا ہے۔ حتم علی المومنین فی الخروج معہ علی کل حال فی المنشط والمکر والعسر والیسر (ابن کثیر) (آیت) ” فی سبیل اللہ “۔ جہاد خواہ اپنے عام ووسیع معنی میں ہو یا محدود واصطلاحی معنی میں قتال کا مترادف، فی سبیل اللہ کی قید ہر حال میں لگی ہوئی، فقہاء نے انفرواخفافا وثقالا سے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ جب جہاد واجب ہوجائے تو امیر جہاد اور لشکریوں کے فاسق ہونے کے ساتھ بھی واجب رہتا ہے۔ فان قیل ھل یجوزا الجھاد مع الفساق قیل لہ ان کل احد من المجاھدین فانما یقول بفرض نفسہ فجائز لہ ان یجاھد الکفار وان کان امیر الجیش وجنودۂ فساقا (جصاص) چناچہ اصحاب نبی ﷺ سے خلفائے راشدین کے بعد فاسق امیروں کی سرداری میں جہاد کرنا ثابت ہے۔ وقد کان اصحاب النبی ﷺ یغزون بعد الخلفاء الاربعۃ مع الامراء الفساق وغزا ابوایوب الانصاری مع یزید اللعین (جصاص) اور فقہاء نے یہ نکتہ بھی خوب لکھا ہے کہ فاسق جب جہاد میں شریک ہوگیا تو اس حیثیت سے وہ فاسق رہا کہاں، وہ تو خود اب مطیع ہوگیا۔ فان الفاق اذا جاھدوا فھم مطیعون فی ذلک (جصاص) 80 ۔ جہاد سے آخرت کی فلاح تو ظاہرا یقینی ہے یعنی وہاں کا اجروقرب۔ باقی دنیا کی فلاح بھی اکثر حاصل ہی ہوجاتی ہے یعنی فتح وعزت اور مال غنیمت وغیرہ۔
Top