Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 46
وَ لَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَهٗ عُدَّةً وَّ لٰكِنْ كَرِهَ اللّٰهُ انْۢبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَ قِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ
وَلَوْ : اور اگر اَرَادُوا : وہ ارادہ کرتے الْخُرُوْجَ : نکلنے کا لَاَعَدُّوْا : ضرور تیار کرتے لَهٗ : اس کے لیے عُدَّةً : کچھ سامان وَّلٰكِنْ : اور لیکن كَرِهَ : ناپسند کیا اللّٰهُ : اللہ انْۢبِعَاثَهُمْ : ان کا اٹھنا فَثَبَّطَهُمْ : سو ان کو روک دیا وَقِيْلَ : اور کہا گیا اقْعُدُوْا : بیٹھ جاؤ مَعَ : ساتھ الْقٰعِدِيْنَ : بیٹھنے والے
اور اگر ان لوگوں نے چلنے کا ارادہ کیا ہوتا تو اس کا کچھ سامان تو کرتے،87 ۔ لیکن اللہ نے ان کے جانے کو پسند ہی نہ کیا اسی لئے انہیں جما رہنے دیا گیا کہ بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو،88 ۔
87 ۔ یہ منافقین اب بعد کو عذر یہ کرنے لگے کہ چلنے کا ارادہ تو ہمارا پختہ تھا لیکن عین وقت پر فلاں فلاں ضرورتیں اور مجبوریاں پیش آگئیں۔ جرح ان کے اس بیان پر ہورہی ہے اور ارشاد ہوتا ہے کہ انہوں نے سفر کی تیاریاں بھی کچھ کی تھیں ؟ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ تعطل علامت ہے عدم ارادہ کی چناچہ بہت سے لوگ اپنے نفس کے دھوکے میں پڑے ہوئے طاعات کی رغبت کا دعوی کرتے ہیں۔ حالانکہ جھوٹے ہوتے ہیں۔ 88 ۔ سارے افعال کا حق تعالیٰ کا اپنی جانب منسوب کرنا اسی معلوم ومعروف قرآنی محاورہ واسلوب بیان کے مطابق ہے کہ بندہ کے ہر فعل تکوینی کی نسبت مسبب الاسباب کی جانب کردینی درست ہے۔ (آیت) ” لکن کرہ اللہ انبعاثھم “۔ اللہ کی طرف سے یہ ناپسندیدگی یاکراہت ان لوگوں کی کفر پر وری اور ایمان بیزاری ہی کی بنا پر ہے (آیت) ” فثبطھم “۔ یعنی انہیں ملنے کی ہمت وتوفیق ہی نہ دی، اس سے اشارۃ یہ بھی نکل آیا کہ اخلاص وارادت کے لئے توفیق الہی شرط ہے۔ (آیت) ” وقیل “۔ اس ” قول “ سے مراد حکم تکوینی ہے۔ (آیت) ” القعدین “۔ وہ پیچھے رہ جانے والے مراد ہیں، جنہیں کسی عذر صحیح کی بنا پر مجبور تھی۔ اے الرجال الذین یکون لھم عذر یمنعھم عن الخروج (روح)
Top