Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 49
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّیْ وَ لَا تَفْتِنِّیْ١ؕ اَلَا فِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوْا١ؕ وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِیْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو۔ کوئی يَّقُوْلُ : کہتا ہے ائْذَنْ : اجازت دیں لِّيْ : مجھے وَلَا تَفْتِنِّىْ : اور نہ ڈالیں مجھے آزمائش میں اَلَا : یاد رکھو فِي : میں الْفِتْنَةِ : آزمائش سَقَطُوْا : وہ پڑچکے ہیں وَاِنَّ : اور بیشک جَهَنَّمَ : جہنم لَمُحِيْطَةٌ : گھیرے ہوئے بِالْكٰفِرِيْنَ : کافروں کو
اور ان میں کوئی کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ مجھے رخصت دے دیجیے اور مجھے خرابی میں نہ ڈالیے،92 ۔ خوب سن لو کہ خرابی میں تو یہ پڑ ہی چکے ہیں، اور بیشک دوزخ کافروں کو گھیرے ہوئے،93 ۔
92 ۔ رومی مسیحی لیڈیاں بالکل آج کل کی فرنگنوں کی طرح اپنے گورے رنگ، اپنے بناؤسنگار اور اپنی بےحجابی وعشوہ طرازی کے لئے مشہور تھیں بعض چالاک منافقوں نے اس کو ایک عذر تراش لیا تھا اور رسول اللہ ﷺ سے آکر عرض کیا تھا کہ ہم تو یہیں رہ جانے دیجیے۔ ہمیں اپنی شرک سے الٹے اور ضرر کا اندیشہ ہے۔ (آیت) ” منھم “۔ یعنی انہیں مخالفین متخلفین میں سے۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ نفس طاعات کی پابندی سے یہ بہانہ کرکے عذر کرنا ہے کہ طاعت میں فلاں فلاں مفسدے ہیں جن کا شرطاعت کی خیر سے بڑھا ہوا ہے۔ 93 ۔ (جس کا ظہور کامل تو گو آخرت میں ہوگا لیکن بہرحال اعمال کفریہ کی بنا پر اس احاطت جہنم کا آغاز تو ابھی ہوچکا ہے) (آیت) ” الا فی الفتنۃ سقطوا “۔ رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی اور آپ کی شریعت سے کفر سے بڑھ کر خرابی اور ہو کون سی سکتی ہے۔ اور اپنی اس نافرمانی وکفر کے دنیوی واخروی ثمرات ونتائج کو تو یہ اپنے ہاتھوں بلاچکے، دین کو مصیبت اور طاعت کو بلاسمجھنے والے کم از کم عہد رسول اللہ ﷺ اور دوران نزول قرآن میں امن میں نہ رہ سکے۔ صحابہ کرام سربکف سرگرم جہاد رہے۔ اور دنیا ہر طرح کامیاب ومنصور۔ منافقین نے جتنی تمنائیں احکام دین سے بچنے کی کیں اور زیادہ ہدف مصائب بنتے گئے۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اہل اشارات کے نزدیک یہی اخلاق سیۂ و اعمال قبیحہ جو آج کفار اشرار کو گھیرے ہوئے ہیں، کل بہ صورت نار ظاہر ہوں گے۔
Top