Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 55
فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ١ؕ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ تَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ
فَلَا تُعْجِبْكَ : سو تمہیں تعجب نہ ہو اَمْوَالُهُمْ : ان کے مال وَلَآ : اور نہ اَوْلَادُهُمْ : ان کی اولاد اِنَّمَا : یہی يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُعَذِّبَهُمْ : کہ عذاب دے انہیں بِهَا : اس سے فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَتَزْهَقَ : اور نکلیں اَنْفُسُهُمْ : ان کی جانیں وَهُمْ : اور وہ كٰفِرُوْنَ : کافر ہوں
سو ان کے مال اور ان کی اولاد آپ کو حیرت میں نہ ڈالیں،102 ۔ اللہ کو تو بس یہ منظور ہے کہ انہیں (نعمتوں) کے ذریعہ سے انہیں دنیا کی زندگی میں ہی عذاب دیتا رہے، اور ان کی جانیں ایسی حالت میں نکالے کہ وہ کافر ہوں،103 ۔
102 ۔ یعنی یہ خیال نہ گزرے کہ یہ جب مقبولین میں ہیں تو انہیں مال اور اولاد کی نعمتیں کیسے نصیب ہورہی ہیں۔ یہ سوال آج بھی کافر قوموں کی خوشحالی، کثرت آبادی، اقبال مندی کو دیکھ دیکھ بہ کثرت مسلمانوں کے دلوں میں ہوتا رہتا ہے۔ حالانکہ دنیوی نعمتوں کیلئے مقبولیت ذرا بھی شرط لازمی نہیں۔ (آیت) ” تعجبک “۔ بہ ظاہر خطاب صرف رسول اللہ ﷺ سے ہے لیکن جواب کی یہ تعلیم کل مسلمانوں کو ہے۔ ھذا الخطاب وان کان فی الظاہر مختصا بالرسول (علیہ السلام) الاان المراد منہ کل ال مومنین (کبیر) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اس میں اہل ایمان کو تنبیہ ہے کہ اہل دنیا کے مال وزینت کو مستحسن نہ سمجھیں اور کہیں ان کے باعث آخرت کے عمل اور اس پر نظر کرنے سے محجوب نہ ہوجائیں۔ 103 ۔ (جس سے آخرت میں بھی مبتلائے عذاب رہیں) ” دنیا میں مال واولاد کا عذاب ہونا محب دنیا کے لئے لازم ہے۔ اول اس کی تحصیل و تمنا میں کیسی کیسی کوفت جسمانی وروحانی اٹھانی پڑتی ہے پھر حصول کے بعد ذرا نقصان ہوگیا ذرا مرض ہوگیا۔ بس ایک کوہ غم سر پر سوال ہے سب حالتیں طبیعت کے موافق بھی ہوں تو اس کا اندیشہ کہ کوئی امر ناگوار نہ پیش آجائے پھر مفارقت کے وقت کس بلا کی حسرت اور صدمہ کہ خدا کی پناہ اور آخرت میں تو ظاہر ہے کہ کافر پر جتنی دنیوی نعمتیں ہوں گی اس کا کفر دونا پڑے گا جس پر عذاب آخرت موعود ہے “۔ (تھانوی (رح) منافقوں پر ایک عذاب تو دنیا ہی میں مشاہد ہے کہ جن اہل ایمان سے وہ دل میں بغض رکھتے ہیں انہی کی خوشامد میں زبان سے لگے رہنا پڑتا ہے۔ انھم کانوا یبغضون محمدا (علیہ الصلوۃ والسلام) بقلوبھم ثم کانو یحتاجون الی بذل اموالھم واولادھم ونفوسھم فی خدمتہ ولا شک ان ھذہ الحالۃ شاقۃ شدیدۃ (کبیر) فقہاء نے اس آیت سے بہ عبارۃ النص (کیونکہ ”(آیت) ” لاتعجبک “۔ بمعنی نہی تحریمی ہے) یہ مسئلہ نکالا ہے کہ کافروں فاسقوں کی ظاہری نعمتوں کو دیکھ کر ان کے حال کو اچھا سمجھنا اور ویسی ہی کیفیت کی تمنا کرنا حرام ہے (آیت) ” لیعذبھم “۔ میں ل عاقبت کا ہے یعنی جو حرکتیں وہ لوگ کررہے ہیں۔ ان کا انجام یہی ہونا ہے کہ یہ نعمتیں ان کے حق میں عذاب بن کر رہیں۔ یہ مراد نہیں کہ انہیں یہ نعمتیں دینے سے اللہ کا مقصود یہی تھا۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اس میں محجوبین کو تنبیہ ہے کہ جس سامان کو راحت کے لئے جمع کرتے رہتے ہیں۔ اس میں ان کو راحت نہیں محض جمع و حفاظت کی مشقتیں ہی ہیں۔ اور پھر چونکہ اعتقاد اجر اور تعلق مع اللہ سے محروم ہیں اس لئے ان مشقتوں میں تسہیل بھی نہیں ہوتی۔
Top