Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 60
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
اِنَّمَا : صرف الصَّدَقٰتُ : زکوۃ لِلْفُقَرَآءِ : مفلس (جمع) وَالْمَسٰكِيْنِ : مسکین (جمع) محتاج وَالْعٰمِلِيْنَ : اور کام کرنے والے عَلَيْهَا : اس پر وَالْمُؤَلَّفَةِ : اور الفت دی جائے قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَفِي : اور میں الرِّقَابِ : گردنوں (کے چھڑانے) وَالْغٰرِمِيْنَ : اور تاوان بھرنے والے، قرضدار وَفِيْ : اور میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ وَابْنِ السَّبِيْلِ : اور مسافر فَرِيْضَةً : فریضہ (ٹھہرایا ہوا) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : علم والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
صدقات (واجبہ) تو صرف غریبوں اور محتاجوں اور کارکنوں کا حق ہیں جو ان پر مقرر ہیں۔108 ۔ نیز ان کا جن کی دل جوئی منظور ہے،109 ۔ اور (صدقات کو صرف کیا جائے) گردنوں (کے چھڑانے) میں،110 ۔ اور قرض داروں (کے قرضہ ادا کرنے) میں،111 ۔ اور اللہ کی راہ میں،112 ۔ اور مسافروں (کی امداد) ہیں، فرض ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ بڑا علم والا ہے، بڑا حکمت والا ہے،113 ۔
108 ۔ یعنی صدقات کی آمدنی انہی مدوں میں خرچ ہونی چاہیے۔ (آیت) ’ ’ انما “۔ کلمہ حصر کا ہے۔ یعنی صرف انہیں مدوں میں، کسی اور مد میں نہیں۔ (آیت) ” الصدقت “۔ صدقۃ سے یہاں مراد صدقہ واجب ہے یعنی زکوٰۃ (آیت) ’ ’ للفقرآء والمسکین “۔ دونوں لفظوں کی تعبیر و تفسیر میں متعدد اقوال نقل ہوئے ہیں۔ محققین نے یہ معنی لئے ہیں کہ فقیر وہ نادار ہے جو سوال نہ کرے اور مسکین وہ نادار ہے جو سوال کرے۔ اور ابن عباس ؓ صحابی اور حسن بصری اور جابر بن زید اور مجاہد اور زہری تابعین سے بھی یہی منقول ہے۔ قال الزھری الفقیر الذی لایسئل والمسکین الذی یسئل وروی ابن سماعۃ عن ابی یوسف عن ابی حنیفۃ فی حد الفقیر والمسکین مثل ھذا (جصاص) وروی عن ابن عباس ؓ والحسن و جابر بن زید والزھری و مجاھد قالوا الفقیر المتعفف الذی لایسال والمسکین الذی یسال فکان قول ابی حنیفۃ موافقا لقول ھولاء السلف (جصاص) فقراء و مساکین کی تفسریں جتنی بھی مختلف ہوں لیکن حکم زکوٰۃ کی حد تک یہ اختلاف کچھ بھی اثر انداز نہیں البتہ حکم وصیت میں یہ بحث چلتی ہے کہ وصیت اگر فقراء کے لئے ہے تو کیسے لوگ مراد ہیں اور اگر مساکین کے لئے ہے تو کیسے لوگ (آیت) ” والعملین علیھا ‘۔ یعنی جو ان صدقات کی تحصیل وصول کرنے پر مامور ہیں۔ ان کی تخواہوں میں۔ 109 ۔ مؤلفۃ القولب سے مراد ایسے غیر مسلم ہیں جن کے مسلمان ہوجانے کی امید ہو۔ یا ان کے شروفتنہ سے بچنا مقصود ہو۔ اور پھر ایسے مسلمان جو اگرچہ اور حیثیتوں سے غیر مستحق ہوں لیکن مالی امداد سے توقع نہ ہو کہ انہیں اسلام سے مزید محبت پیدا ہوجائے گی غرض یہ کہ انسانوں کا ہر وہ گروہ جس کی طرف سے کسی نہ کسی حیثیت سے اسلامی حکومت کو کوئی نہ کوئی خطرہ درپیش ہو۔ جمہور کا قول ہے کہ یہ حکم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ کے لئے مخصوص تھا۔” صحابہ کے وقت میں اجماع ہوگیا ان کے عدم استحقاق پر جو علامت ہے حکم سابق کے منسوخ ہوجانے کی “ (تھانوی (رح) لیکن بعض علماء نے یہ بھی کہا ہے کہ تعامل صحابہ سے یہ حکم منسوخ نہیں ہوگیا بلکہ محض وقتی رفع حکم تھا بہ سبب عدم ضرورت واستغناء کے۔ فاضل گرامی مولنا گیلانی مدظلہ، کی تحقیق حسب ذیل ہے۔ انہی مصارف میں ایک مد ان لوگوں کی بھی ہے جو محض مالی کمزوریوں کی وجہ سے اسلامی حکومت اور اسلام کی مخالفت کرتے ہیں جیسا کہ اس زمانہ میں سیاسی شورش پسندوں کے ایک گروہ کی یہی حالت ہے۔ ان لوگوں کے چپ کرنے کے لئے بھی الصدقات کے مصارف میں قرآن نے مؤلفۃ القلوب کی ایک مد رکھی ہے۔ اگرچہ عام طور پر فقہاء کہتے ہیں کہ یہ مصرف صرف ابتداء اسلام کی حد تک محدود تھا اور اب ساقط ہوگیا، دلیل میں حضرت عمر ؓ کا یہ اثر پیش کیا جاتا ہے کہ آپ نے مؤلفۃ القلوب کے بعض افراد کو دینے سے اس بناء پر انکار کردیا کہ اب اسلام اتنا قوی ہوچکا ہے کہ ان لوگوں کی تالیف قلب کی ضرورت نہ رہی۔ حالانکہ قصہ صرف اس قدر ہے کہ چند خاص لوگوں کو حضرت عمر ؓ نے دینے سے یہ فرماتے ہوئے انکار کردیا تھال ان اللہ اعز الاسلام فاذھبا (اب خدا اسلام کو عزت و شوکت عطا کرچکا، پس تو دونوں جاؤ (کچھ نہ ملے گا) لیکن اس کا یہ مطلب قرار دینا کہ ہر شخص کے لئے حضرت عمر ؓ نے اس مد کو ساقط کردیا میری کچھ سمجھ میں نہ آیا قرآن نے جس مصرف کو منصوص کیا ہے اس کو اوالا حضرت عمر ؓ منسوخ ہی کیسے کرسکتے ہیں، نیز ایک ایسی واحد خبر سے قرآن کے ایک قانون پر خط نسخ نہیں پھیراجاسکتا بلکہ اس کا صاف مطلب یہی ہے یہ امام اور حکومت وقت کے صوابد ید پر ہے جس وقت جن لوگوں کے لئے ان کی ضرورت سمجھے، دے جن کے لئے ضرورت نہ سمجھے نہ دے “۔ (اسلامی معاشیات از فاضل گیلانی) 110 ۔ یعنی غلاموں کے آزاد کرانے کی مد میں ” گردن چھڑانے کا مطلب یہ ہے کہ کسی غلام کو اس کے آقا نے کہہ دیا ہو کہ تو اتنا روپیہ دے دے تو آزاد ہے اس غلام کو زکوٰۃ دی جائے تاکہ اپنے آقا کو دے کر آزاد ہوجائے “۔ (تھانوی (رح ) 1 1 1 ۔ (خواہ وہ قرضدار بجائے خود غنی ومتمول ہی ہو) جس کے پاس دس ہزار روپیہ موجود ہو اور گیارہ ہزار کا مثلا قرضدار ہے، اس کو زکوٰۃ دینا درست ہے۔ (تھانوی (رح) دنیا میں شاید اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے مقروضوں کے ساتھ عملی ہمدردی کا سبق دیا ہے اور اس گروہ کو بھی فقراء و مساکین ہی کی طرح حاجت مند سمجھا ہے۔ فاضل گرامی مولنا گیلانی لکھتے ہیں۔” یہ دنیا کا وہ مظلوم گروہ ہے جس کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک تو بڑی بات ہے اس وقت تک دنیا کی حکومتوں نے ان کے ستانے والوں اور ان پر ظلم وتشدد کے بہاؤ توڑنے والوں کو صرف زبانی نہیں بلکہ قانونی امداد واعانت کو اپنا فریضہ قرار دے رکھا ہے ہر حکومت کی فوجی اور عسکری قوت اس کے لئے تیاررہتی ہے کہ مقروضوں کے ذمہ قرض خواہوں کا جو دین ومطالبہ ہے صرف اصل ہی نہیں۔ بلکہ سوددر سود کے ساتھ اس سے وصول کرا دیا جائے خواہ اس راہ میں اس کی ساری جائداد گھر کا سارار اثاثہ ہی کیوں نہ نیلام ہوجائے یہ ایک واقعہ ہے اور تہذیب و تمدن کی برقی روشنیوں میں سے یہ اندھیر کھلم کھلا اودھم مچائے ہوئے ہے۔ (اسلامی معاشیات) 112 ۔ یعنی مجاہدین کی امداد میں، بعض نے حاجیوں کو بھی اس میں شامل کیا ہے۔ بعض نے دینی طالب علموں کو بھی۔ وقیل المراد طلبۃ العلم واقتصر علیہ فی الفتاوی الظھیریہ (روح) اور بعض فقہاء نے یہاں تک توسیع سے کام لیا ہے کہ طاعت الہی میں ہر قسم کے جدوجہد کرنے والوں کو اس میں داخل کردیا ہے۔ وفسرہ فی البدائع بجمیع القرب قیدخل فیہ کل من سعی فی طاعۃ اللہ تعالیٰ وسبل الخیرات (روح) 113 ۔ وہ ہر مناسب نامناسب کو جانتا ہے اور اس کے احکام ہمیشہ مناسب حال اور مصلحتوں سے لبریز ہوتے ہیں۔ (آیت) ” فریضۃ من اللہ “۔ یہ تاکید ہے ان احکام کے واجب العمل ہونے کی۔
Top