Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 62
یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ لِیُرْضُوْكُمْ١ۚ وَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْهُ اِنْ كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ
يَحْلِفُوْنَ : وہ قسمیں کھاتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ کی لَكُمْ : تمہارے لیے لِيُرْضُوْكُمْ : تاکہ تمہیں خوش کریں وَاللّٰهُ : اور اللہ وَرَسُوْلُهٗٓ : اور اس کا رسول اَحَقُّ : زیادہ حق اَنْ : کہ يُّرْضُوْهُ : وہ ان کو خوش کریں اِنْ : اگر كَانُوْا مُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے ہیں
یہ لوگ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ تم کو خوش کرلیں،120 ۔ حالانکہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ مستحق ہیں کہ خوش اس کو کرلیں اگر (واقعی) یہ لوگ ایمان والے ہیں،121 ۔
120 ۔ اور اس طرح ہمارے انتقام وتعزیر سے اپنے جان ومال کو بچالے جائیں) لکم یعنی تم مسلمانوں کے سامنے، تمہیں سنا سنا کر۔ (آیت) ” یحلفون باللہ “۔ قسمیں اس امر پرکھاتے ہیں کہ ہم نے فلاں بات نہیں کی، یا فلاں الزام میں ہم بالکل بےقصور ہیں۔ 121 ۔ یعنی اگر یہ لوگ واقعی اہل ایمان ہیں تو انہیں جاننا چاہیے تھا کہ مومنین کی رضا جوئی پر اللہ اور اس کے رسول کی رضا جوئی کہیں مقدم ہے۔ (آیت) ” یرضوہ “ میں ضمیر رسول کی جانب بھی ہوسکتی ہے جو مرجع قریب ہے اور اللہ کی جانب بھی جو مرجع بعید ہے اور ایک ہی ضمیر سے دونوں کام نکالنے میں نکتہ بلاغت یہ ہے کہ رسول کی رضا اللہ کی رضا سے منضم ہے اور یہ کمال قرب و قبول رسول اللہ ﷺ کا ہے۔ انما وحد الضمیر لانہ لاتفاوت بین رضاء اللہ ورضا رسولہ ﷺ فکانا فی حکم مرضی واحد (کشاف) (آیت) ” ان کانوا مومنین “۔ اس پر اشارہ ادھر آگیا کہ اللہ کی رضا تو موقوف ہے ان لوگوں کے اخلاص و ایمان پر۔
Top