Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 65
وَ لَئِنْ سَاَلْتَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ١ؕ قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰیٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ
وَلَئِنْ : اور اگر سَاَلْتَهُمْ : تم ان سے پوچھو لَيَقُوْلُنَّ : تو وہ ضرور کہیں گے اِنَّمَا : کچھ نہیں (صرف) كُنَّا : ہم تھے نَخُوْضُ : دل لگی کرتے وَنَلْعَبُ : اور کھیل کرتے قُلْ : آپ کہ دیں اَبِاللّٰهِ : کیا اللہ کے وَاٰيٰتِهٖ : اور اس کی آیات وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول كُنْتُمْ : تم تھے تَسْتَهْزِءُ وْنَ : ہنسی کرتے
اور اگر آپ ان سے سوال کیجیے تو کہہ دیں گے کہ ہم تو محض مشغلہ اور خوش طبعی کررہے تھے،124 ۔ آپ کہہ دیجیے کہ اچھا تو تم استہزا کررہے تھے اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول کے ساتھ،125 ۔
124 ۔ (اور کچھ واقعی برائی یا عیب چینی ہمیں تھوڑے ہی مقصود تھی) یہ عذر آج بھی کتنا چلا ہوا ہے۔ شعر وادب کے پردہ میں کون سی گستاخی اللہ اور اس کی شریعت اور اس کے فرشتوں اور حوروں کے ساتھ اٹھ رہی ہے۔ اور جواب ہر مرتبہ یہی ملتا ہے کہ یہ تو محض ادبی دلچسپیوں کے لئے تھا کہیں واقعی مذہب پر تعریض تھوڑے ہی مقصود تھی ! 125 ۔ یعنی بالفرض تمہاری غرض تھوڑی دیر کیلئے خوش طبعی ہی تھی جب بھی یہ تو سوچا ہوتا کہ استہزاء کن چیزوں سے کر رہے ہو ! اللہ سے ؟ اس کے احکام سے ؟ اس کے رسول سے ؟ یہ چیزیں محل استہزاء کسی صورت میں بھی ہوسکتی ہیں ؟ آج کے ادیب اور شاعر (ایک دو نہیں صدہا کی تعداد میں) ذرا ان پہلوؤں کو بھی سوچ رکھیں، فقہاء نے یہ بھی لکھا دیا ہے کہ حکم شرعی کے اعتبار سے استہزاء کی یہ تینوں قسمیں (استہزاء باللہ، استہزاء بایات اللہ و استہزاء برسول اللہ) برابر ہیں۔ دل علی ان الاستہزاء بایات اللہ وبشیء من شرائع دینہ کفر فاعلہ (جصاص) فقہاء نے یہ مسئلہ بھی مستنبط کیا ہے کہ کلمہ کفر خواہ ارادہ وسنجیدگی سے ادا کیا جائے خواہ محض ایک لطیفہ وخوش طبعی کے طور پر حکم شرعی کے اعتبار سے دونوں برابر ہیں۔ اس لئے کہ قرآن نے ان کے عذر لہو ولعب کو بالکل مسترد کردیا اور حکم کفران پر باقی رکھا، ہاں حالت جبرواکراہ کا حکم اس سے الگ ہے۔ فیہ الدلالۃ علی ان الاعب والجاد سواء فی اظھار کلمۃ الکفر علی غیر وجہ الاکراہ (جصاص) فاخبر ان ھذالقول کفر منھم علی ای وجہ قالوہ من جد اوھزل فدل ذلک علی استواء حکم الجاد والھازل فی اظہار کلمۃ الکفر (جصاص) اور امام رازی (رح) نے اس بات کو عقلی پہلو سے بیان کیا ہے۔ انہ تعالیٰ بین ان ذالک الاستھزاء کان کفرا والعقل یقتضی ان الاقدام علی الکفر لاجل اللعب غیر جائز (کبیر) (آیت) ” باللہ “۔ امام رازی (رح) نے لکھا ہے کہ عمل استہزاء کا وقوع اللہ تعالیٰ پر تو ہو ہی نہیں سکتا۔ لامحالہ مراد یا تو احکام شرعی سے ہوگی یا اسماء الہی سے اور یا قدرت الہی سے۔ المراد بالاستھزاء باللہ ھو الاستھزاء بتکالیف اللہ تعالیٰ (کبیر) یحتمل ان یکون المراد الاستھزاء بذکر اللہ فان اسماء اللہ قد یستھزیء الکافر بھا (کبیر) ثم ان بعض الجھال من المنافقین ذکر کلاما معشرا بالقدح فی قدرۃ اللہ کماھو عادات الجھال والملحدۃ (کبیر)
Top