Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 98
وَ مِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یَّتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ مَغْرَمًا وَّ یَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَآئِرَ١ؕ عَلَیْهِمْ دَآئِرَةُ السَّوْءِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَمِنَ : اور سے (بعض) الْاَعْرَابِ : دیہاتی مَنْ : جو يَّتَّخِذُ : لیتے ہیں (سمجھتے ہیں) مَا يُنْفِقُ : جو وہ خرچ کرتے ہیں مَغْرَمًا : تاوان وَّيَتَرَبَّصُ : اور انتظار کرتے ہیں بِكُمُ : تمہارے لیے الدَّوَآئِرَ : گردشیں عَلَيْهِمْ : ان پر دَآئِرَةُ : گردش السَّوْءِ : بری وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور دیہاتیوں میں کوئی کوئی ایسا بھی ہے جو کچھ وہ خرچ کرتا ہے اسے جرمانہ سمجھتا ہے اور رتمہارے لئے گردشوں کا منتظر رہتا ہے،178۔ بری گردش خود انہی (منافقین) کے لئے ہے،179۔ اور اللہ خوب سننے والا ہے خوب جاننے والا ہے،180۔
178۔ (کہ تمہیں مصائب ناگہانی سے دو چار ہونا پڑے) (آیت) ” ماینفق “۔ یعنی زکوٰۃ، جہاد وغیرہ امور خیر میں جو کچھ خرچ کرتا ہے، انفاق کے معنی تو مطلق خرچ کرنے کے ہیں خواہ وہ خرچ کسی نوعیت کا بھی ہو، لیکن قرآن مجید نے اسے عموما موقع مدح ہی پر استعمال کیا ہے اور مطلق انفاق سے مراد کار خیر میں خرچ ہی لی ہے، جیسے مطلق قتال بول کر قرآن مجید نے عموما مراد جہاد فی سبیل اللہ لی ہے۔ برے اور بےجا موقعوں پر خرچ کے لیے قرآن مجید نے عموما لفظ ” اسراف “ کا استعمال کیا ہے۔ (آیت) ” یتخذمغرما “۔ یعنی ایسے موقعوں پر یہ منافقین مسلمانوں کی شرما شرمی خرچ تو کر گزرتے ہیں، لیکن اسے جرمانہ ہی کی رقم کی طرح اپنے لیے گراں سمجھتے ہیں۔ یہ نمونہ ہے ان کے بخل کا، محققین نے لکھا ہے کہ مصارف شرعی کو تکلیف وجبر تصور کرنا علامات نفاق میں سے ہے۔ (آیت) ” یتربص بکم الدوآئر “۔ یعنی مسلمانوں کے حق میں منتظر یہی رہا کرتے ہیں، کہ کب یہ زمانہ کی گردش کا شکار ہوتے ہیں، یہ نمونہ ہے ان کے حسد وعداوت اسلام کا (آیت) ” الدوآئر “ دائرۃ وہ مصیبت ہے جس سے نجات نہ ہوسکے اور جو دائرہ کی طرح انسان کو گھیرلے۔ الدوائرھی المصائب التی لا مخلص منھا تحیط بہ کما تحیط الدائرۃ (بحر) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ جو شخص اپنے کو روپیہ کا مالک سمجھے گا، اسے خرچ کرنا یقیناً گراں گزرے گا اور جو کئی مالک اللہ کو سمجھے گا اور اپنے کو محض امین یا متولی، اسے تو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بہت غنیمت معلوم ہوگا۔ 179۔ جیسا کہ قرآن مجید کا عام اسلوب بیان ہے اس نے منافقوں اور مجرموں والے الفاظ انہیں پر الٹ دیئے اور عملا یہ پیش گوئی لفظ بہ لفظ پوری ہو کر رہی۔ اسلام کی فتح مندیوں میں وسعت ہوتی گئی۔ منافقین کی حسرتیں دل ہی میں رہیں، ہر طرح ذلیل و خوار ہوئے۔ آیت سے یہ پہلو بھی نکلتا ہے کہ حاسد وبدبین خود ہی گرفتار بلاہوتے ہیں۔ 180۔ چناچہ وہ منافقین کی گفتگوئے نفاق بھی خوب سن رہا ہے اور مسلمانوں کے ساتھ ان کی چالبازیوں، سازشوں اور منصوبوں سے بھی خوب واقف ہے۔
Top