بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Mazhari - Yunus : 1
الٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِیْمِ
الٓرٰ : الف لام را تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْكِتٰبِ : کتاب الْحَكِيْمِ : حکمت والی
آلرا ۔ یہ بڑی دانائی کی کتاب کی آیتیں ہیں
الۗرٰ سورة البقرہ کے شروع میں (حروف مقطعات کی) بحث گزر چکی ہے (یہ بھی دوسرے حروف مقطعات کی طرح ہے) ۔ تلک یہ۔ سورت یا قرآن کی آیات کی طرف اس لفظ سے اشارہ ہے۔ بعض نے کہا : ان آیات کی طرف اشارہ ہے جن کا ذکر اس سورت اس پہلے کردیا گیا۔ اٰیٰت الکتب الحکیم۔ پر حکمت قرآن کی آیات ہیں۔ الحکیم ‘ الکتاب کی صفت ہے : پر حکمت ‘ یا حکیم کا کلام ‘ یا محکم غیر منسوخ۔ مؤخر الذکر مطلب اس وقت ہوگا جب آیات سے مراد صرف اس سورت کی آیات ہیں (اس سورت میں کوئی آیت منسوخ نہیں لیکن پورا قرآن مراد ہو تو حکیم بمعنی غیر منسوخ ...... نہیں کہا جاسکتا (قرآن میں تو بعض آیات کے احکام منسوخ بھی ہیں) یا حکیم بمعنی محکم سے یہ مراد ہے کہ اس میں کوئی آیت غلط نہیں اور کلام میں کہیں اختلاف نہیں۔ حسن نے کہا : آیات کتاب میں حکم دیا گیا ہے : انصاف اور بھلائی کرنے کا ‘ قرابتداروں کو دینے کا ‘ بےحیائی ‘ برے کام اور ظلم و زیادتی سے باز رہنے کا ‘ فرمانبرداروں کیلئے جنت اور نافرمانوں کیلئے دوزخ کا۔ ابن جریر نے بطریق ضحاک ‘ حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ اللہ نے جب محمد ﷺ کو نبی بنا کر بھیجا تو عرب نے اس کو ماننے سے انکار کردیا اور کہا : اللہ کسی انسان کو پیغمبر بنا کر بھیجے ‘ اس کی شان اس سے بہت بڑی ہے (وہ انسانوں کا محتاج نہیں) اس پر آیت ذیل نازل ہوئی :
Top