Tafseer-e-Mazhari - Yunus : 96
اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَۙ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک وہ لوگ جو حَقَّتْ : ثابت ہوگئی عَلَيْهِمْ : ان پر كَلِمَتُ : بات رَبِّكَ : تیرا رب لَا يُؤْمِنُوْنَ : وہ ایمان نہ لائیں گے
جن لوگوں کے بارے میں خدا کا حکم (عذاب) قرار پاچکا ہے وہ ایمان نہیں لانے کے
ان الذین حقت علیھم کلمت ربک لایؤمنون۔ بیشک جن لوگوں کیلئے آپ کے رب کا حکم (فیصلہ ازلی) طے ہوچکا (ہ ہ ایمان نہیں لائیں گے) وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ حَقَّتْ واجب ہوگیا۔ کلمۂ رب سے مراد ہے ازلی فیصلہ کہ وہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ مالک ‘ ترمذی اور ابو داؤد نے مسلم بن یسار کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب سے آیت وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْم بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ وَذُرِّیَّتَھُمْ کا معنی دریافت کیا گیا تو آپ نے جواب دیا : میں نے خود سنا کہ جب اس آیت کا (مرادی اور تشریحی) معنی رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا تو حضور ﷺ نے فرمایا : اللہ نے آدم کو پیدا کیا ‘ پھر ان کی پشت پر اپنا دایاں ہاتھ پھیر کر ان کی کچھ نسل باہر نکالی اور فرمایا : ان کو میں نے جنت کیلئے پیدا کیا اور یہ جنت والوں ہی کے کام کریں گے ‘ پھر پشت پر ہاتھ پھیر کر کچھ نسل برآمد کی اور فرمایا : ان کو میں نے دوزخ کیلئے پیدا کیا اور یہ دوزخیوں ہی کے کام کریں گے۔ امام احمد نے بوساطت ابو نصرہ ‘ حضرت ابو عبد اللہ صحابی کا بیان نقل کیا ہے ‘ ابوعبدا اللہ نے فرمایا : میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ نے اپنے دائیں ہاتھ کی ایک مٹھی لی اور دوسرے ہاتھ کی دوسری مٹھی (اوّل کے متعلق فرمایا :) یہ اس کیلئے ہے ‘ یعنی جنت کیلئے اور یہ اس کیلئے ہے ‘ یعنی دوزخ کیلئے اور مجھے (کسی کی پرواہ نہیں۔ ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ اللہ کا فیصلہ ناقابل شکست ہے۔
Top