حتی زرتم المقابر . یعنی مال و جاہ اور کنبہ و قبیلہ کی زیادتی پر فخر کرنے نے تم کو لغویات اور بیہودگیوں میں ڈال دیا
یہاں تک کہ موت آگئی اور قبروں میں دفن کردیئے گئے۔
ابن ابی حاتم نے زید بن اسلم کا قول بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم کو تکاثر نے طاعت سے باز رکھا ‘ یہاں تک کہ تم کو موت آگئی۔ قتادہ نے کہا : یہودی اپنی کثرت پر فخر کرتے تھے اور کہتے تھے ‘ ہم فلاں قبیلہ سے زیادہ ہیں۔ اس شیخی بازی نے ان کو (اعترافِ حق اور طاعت سے) مرتے وقت تک باز رکھا۔ انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اس تفسیر اور شان نزول پر حتی غایت کے لیے آیا ہے (یعنی مرتے دم تک) ۔
ابن ابی حاتم نے حضرت ابن بریدہ کا قول نقل کیا ہے کہ اس آیت کا نزول انصار کے دو قبیلوں کے حق میں ہوا۔ ایک بنی حارثہ ‘ دوسرا بنی الحارث۔ ہر ایک نے دوسرے پر فخر اور اپنی کثرت پر شیخی کا اظہار کیا تھا۔ ایک نے کہا : کیا تم میں کوئی فلاں ‘ فلاں اشخاص کی طرح ہے ‘ دوسرے نے بھی ایسا ہی کہا۔ یہ مقابلہ تو زندوں کے متعلق تھا ‘ پھر کہنے لگے۔ اب قبرستان کو چلو۔ دونوں قبرستان کو گئے اور ہر ایک نے اپنے قبیلے کے مردوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : کیا تم میں کوئی ایسا ہے۔
کلبی نے کہا کہ یہ آیات قریشی قبائل کے حق میں نازل ہوئیں۔ بنی عبد مناف اور بنی سہم میں سے ہر قبیلہ نے کہا ہم میں سردار اور عزت مند آدمی تم سے زیادہ ہیں اور ہماری تعداد بھی تم سے زیادہ ہے۔ گنتی کی تو بنی عبد مناف زیادہ نکلے۔ پھر کہنے لگے : اب ہم اپنے مردوں کو شمار کریں گے چناچہ قبرستان میں جا کر مردوں کو شمار کیا تو بنی سہم کی تعداد کے تین گھر بڑھ گئے کیونکہ دور جاہلیت میں ان کی تعداد زیادہ تھی۔ اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ان دونوں روایتوں کی روشنی میں آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ تم نے قبرستان میں جا کر مردوں کو بھی شمار کیا یہاں تک تمہارا تفاخر عددی بڑھ گیا کہ زندوں کو شمار کرنے کے بعد مردوں کی کثرت پر بھی فخر کرنے لگے۔ اس تفسیر پر زیارت قبور سے مجازاً مراد ہوگا مردوں کا ذکر کرنا یا زیارت قبور کا حقیقی معنی ہی مراد ہوگا کیونکہ وہ واقعی قبرستان کو قبر شماری کے لیے گئے تھے۔ بہرحال اس صورت میں حتّٰی سببیت کے لیے ہوگا۔
حضرت عبداللہ بن السخیر نے کہا میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا ‘ اس وقت حضور ﷺ آیت : الھٰکم التکاثر پڑھ رہے تھے ‘ پھر فرمایا : آدمی کہتا ہے ‘ میرا مال ہے ‘ میرا مال ہے ‘ تیرا مال تو صرف وہی ہے جو تو نے کھا کر ختم کردیا یا پہن کر پرانا کردیا یا خیرات کردیا اور جاری کردیا۔ بغوی (بعض دوسری روایت میں جاری کردیا کی جگہ تو نے ذخیرہ کرلیا ہے) ۔
حضرت انس بن مالک کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میت کے پیچھے تین چیزیں آتی ہیں ‘ دو واپس چلی جاتی ہیں۔ ایک میت کے ساتھ رہ جاتی ہے مردہ کے گھر والے ‘ مردہ کا مال اور مردہ کے اعمال یہ تین چیزیں پیچھے رہ جاتی ہیں ‘ مال اور گھر والے تو لوٹ جاتے ہیں اور اعمال اس کے ساتھ رہتے ہیں۔ (رواہ البخاری)
حضرت عیاض بن حمار مجاشعی کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ نے میرے پاس وحی بھیجی ہے کہ تم لوگ تواضع کرو ‘ نہ کوئی کسی پر فخر کرے ‘ نہ کوئی کسی پر زیادتی۔ (رواہ مسلم)
حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کو اپنے مردہ ‘ باپ دادوں پر فخر کرنے سے باز رہنا چاہیے۔ وہ جہنم کا کوئلہ ہیں۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو اللہ کے نزدیک گوبر کے اس کیڑے سے بھی زیادہ ذلیل ہوجائیں گے جو گندگی کو اپنی سونڈھ سے لڑکاتا ہے۔ اللہ نے تم سے جاہلیت کی حمیت اور باپ دادا پر جاہلیت کے زمانہ کی شیخی زائل کردی۔ آدمی یا پرہیزگار مؤمن ہے یا بدبخت فاجر ‘ سب لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم کی تخلیق مٹی سے تھی۔ (رواہ الترمذی و ابوداؤد)
حضرت عقبہ بن عامر کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : تمہارے یہ نسب کسی پر برتری دینے والے نہیں۔ تم سب آدم کی اولاد ہو جیسے ایک صاع کی اونچائی دوسرے صاع کی طرح ہوتی ہے ‘ بغیر دین اور تقویٰ کے کسی کو کسی پر فضیلت نہیں۔ آدمی (کی برائی) کے لیے اتنا ہی بس ہے کہ وہ بدزبان ‘ فحش گو ‘ بخیل ہو۔ (رواہ احمد والبیہقی)
حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کا دن ہوگا تو اللہ ایک منادی کو یہ ندا دینے کا حکم دے گا ‘ سن لو میں نے ایک نسبت مقرر کی اور تم نے دوسری نسبت مقرر کی۔ میں نے تم میں سب سے عزت والا اسی کو قرار دیا جو سب سے بڑا متقی ہو مگر تم نے (اس کو ماننے سے) انکار کردیا۔ ہاں یہ کہنے لگے کہ فلاں بن فلاں ‘ فلاں بن فلاں سے افضل ہے۔ پس آج میں اپنی قائم کردہ نسبت کو اونچا کرتا ہوں اور تمہارے نسب کو نیچے گراتا ہوں۔ متقی کہاں ہیں۔ (رواہ الطبرانی فی الاوسط)