Tafseer-e-Mazhari - Hud : 107
خٰلِدِیْنَ فِیْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ
خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا : اس میں مَا دَامَتِ : جب تک ہیں السَّمٰوٰتُ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضُ : اور زمین اِلَّا : مگر مَا شَآءَ : جتنا چاہے رَبُّكَ : تیرا رب اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تیرا رب فَعَّالٌ : کر گزرنے والا لِّمَا يُرِيْدُ : جو وہ چاہے
(اور) جب تک آسمان اور زمین ہیں، اسی میں رہیں گے مگر جتنا تمہارا پروردگار چاہے۔ بےشک تمہارا پروردگار جو چاہتا ہے کردیتا ہے
خلدین فیھا ما دامت السموت والارض ہمیشہ اس میں رہیں گے جب تک آسمان و زمین قائم ہیں۔ ضحاک نے کہا : آسمان و زمین سے جنت و دوزخ کے آسمان و زمین مراد ہیں۔ جو چیز سر کے اوپر کی جانب ہو وہ سماء ہے اور جس پر قدم ٹکے ہوئے ہوں وہ ارض ہے۔ یہ بات ناقابل انکار ہے کہ حشر میں سب لوگوں کا اجتماع ہوگا تو وہ کسی جگہ ہوگا۔ قدموں کے نیچے بھی کوئی چیز ہوگی اور سر کے اوپر کی جانب بھی کچھ ہوگا۔ اہل معنی کہتے ہیں کہ عرب لوگ جب کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کو آسمان و زمین کے وجود کے ساتھ مشروط کرتے ہیں تو ان کی مراد اس فعل یا عدم فعل کا دوام ہوتا ہے۔ اس قول کی روشنی میں مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالاَرْضِ کی مراد ہوگی : دوامی ‘ ہمیشہ۔ الا ما شآء ربک ہاں اگر آپ کے رب ہی کو (نکالنا) منظور ہو تو دوسری بات ہے۔ یہ جملہ بظاہر دلالت کر رہا ہے کہ دوزخ کے اندر دوزخ ایک خاص وقت تک رہیں گے ‘ پھر مدت سکونت دوزخ ختم ہوجائے گی۔ ایک روایت میں حضرت ابن مسعود ؓ و حضرت ابوہریرہ ؓ کے جو اقوال آئے ہیں ان سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت ابن مسعود کا بیان ہے کہ جہنم پر ایک وقت ایسا ضرور آئے گا کہ اس میں کوئی نہ ہوگا اور یہ حالت اس وقت ہوگی جب لوگ اس میں احقاب (صدیوں) تک رہ چکے ہوں گے۔ حضرت ابوہریرہ کا ایک بیان بھی اسی طرح آیا ہے۔ صوفیاء میں سے شیخ محی الدین ابن عربی کا قول بھی یہی ہے ‘ لیکن یہ قول اجماع کے اور صریحی آیات و احادیث کے خلاف ہے۔ اللہ نے فرمایا : فِی العذابِ ھُمْ خَالِدُوْنَ عذاب میں ہی وہ ہمیشہ رہیں گے۔ طبرانی ‘ ابونعیم اور ابن مردویہ نے حضرت ابن مسعود کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر دوزخیوں سے کہہ دیا جائے کہ تم کو (دوزخ میں) اتنے (برسوں) رہنا ہے جتنی سنگریزوں کی تعداد ہے تو وہ اس کو سن کر خوش ہوجائیں گے اور اگر اہل جنت سے کہہ دیا جائے کہ تم کو (جنت میں) اس قدر (مدت) رہنا ہے جتنی سنگریزوں کی گنتی ہے تو ان کو یہ سن کر غم پیدا ہوجائے گا۔ مگر (ایسا نہ ہوگا بلکہ) ان سب دوزخیوں اور جنتیوں) کے لئے وہاں دوام سکونت مقرر کردیا گیا ہے۔ طبرانی نے الکبیر میں اور حاکم نے حضرت معاذ بن جبل کی روایت سے بیان کیا ہے اور حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ کو یمن (کا حاکم بنا کر) بھیجا۔ حضرت معاذ وہاں پہنچے تو (ایک تقریر میں) فرمایا : لوگو ! میں اللہ کے رسول ﷺ کا قاصد ہوں ‘ مجھے تمہارے پاس یہ اطلاع دینے کے لئے بھیجا گیا ہے کہ لوٹ کر اللہ کی طرف جانا ہے جنت کی طرف یا دوزخ کی طرف ‘ وہاں دوامی قیام ہوگا (دوامی زندگی ہوگی) بغیر موت کے اور قیام ہوگا بغیر کوچ کے (یعنی کبھی وہاں سے کوچ نہیں کیا جائے گا) اور ایسے جسموں کے اندر ہوگا جو کبھی نہیں مریں گے۔ شیخین نے حضرت ابن عمر کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں چلے جائیں گے۔ پھر ایک منادی (دونوں فریق کے درمیان) ندا کرے گا : اے دوزخ والو ! (آئندہ) موت نہیں اور اے جنت والو ! (آئندہ) موت نہیں۔ ہر شخص جس حالت میں ہے ‘ ہمیشہ اسی میں رہے گا۔ بخاری نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کہا جائے گا : اے اہل جنت ! (تمہارے لئے) دوام ہے ‘ موت نہیں ہے اور اے اہل نار ! (دوزخ میں تمہارے لئے) دوام ہے ‘ موت نہیں ہے۔ ایک اور حدیث جس میں موت کو ذبح کردینے کا ذکر ہے ‘ اس میں بھی یہ آیا ہے کہ ندا دی جائے گی : اے اہل جنت ! موت نہیں ہے اور اے دوزخ والو ! (آئندہ) موت نہیں ہے۔ یہ حدیث شیخین نے حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت ابو سعید کی روایت سے اور حاکم نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کی ہے اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن مسعود اور حضرت ابوہریرہ کا اوّل الذکر قول اگر صحیح روایت سے ثابت ہوجائے تو اس قول کا یہ مطلب ہے کہ جہنم پر ایک ایسا وقت آئے گا جب اس کے اندر کوئی اہل ایمان میں سے نہیں رہے گا (سب کافر ہی رہ جائیں گے) اور کافر تو اس میں ہمیشہ بھرے رہیں گے۔ میں نے آیت : لٰبثین فیھا احقابًا کی تفسیر میں لکھ دیا ہے کہ یہ آیت بدعتی مسلمانوں کے حق میں نازل ہوئی۔ لیکن اکثر اہل تفسیر کے نزدیک احقاب سے مراد غیر متناہی صدیاں ہیں۔ جب علماء کا یہ اجماع ہوگیا کہ کفار ہمیشہ جہنم میں رہیں گے تو اب اس آیت کا اور آیۃ کے اندر جو دو استثناء ہیں ‘ ان کا مطلب کیا ہوگا ؟ اس کی توضیح علماء نے مختلف طور پر کی ہے۔ میرے نزدیک سب سے اچھا مطلب یہ ہے کہ کفار ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ‘ مگر جب ان کو بھڑکتی آگ سے نکال کر کھولتے ابلتے پانی میں لے جا کر ڈالنا ہوگا تو جحیم سے کھینچ کر حمیم میں ڈال دیا جائے گا اور اس طرح ہمیشہ ہوتا رہے گا۔ بغوی نے آیۃ یَطُوْفُّوْنَ بَیْنَھَا وَبَیْنَ حَمِیْمٍ اٰنٍ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ وہ حمیم و جحیم کے درمیان چکر لگاتے رہیں گے۔ آگ کی شدت کی وجہ سے جب وہ فریاد کریں گے تو گرم ابلتا پانی جو پگھلے ہوئے تانبے یا تیل کی طرح ہوگا ‘ ان کو پلایا جائے گا۔ ا اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَاِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَاءِ کَالْمُھْلِ یا آگ اور زمہریر (سخت ترین سردی) کے عذاب میں چکر لگاتے رہیں گے۔ شیخین نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ دوزخ نے اپنے رب سے شکایت کی اور عرض کیا : اے میرے رب ! میرے ایک حصے کو (شدت گرمی کی وجہ سے) دوسرا حصہ کھائے جاتا ہے۔ اللہ نے اس کو (سال میں) دو سانسیں لینے کی اجازت دے دی ‘ ایک سردی کے موسم میں اور ایک گرمی کے موسم میں (موسم گرما میں) جو لوگ سخت ترین گرمی محسوس کرتے ہیں ‘ وہ دوزخ کی سانس کی وجہ سے ہوتا ہے اور سخت ترین سردی جو محسوس کرتے ہیں ‘ وہ بھی دوزخ کے سانس کے سبب سے ہوتا ہے۔ بزار نے حضرت ابو سعید کی روایت سے اور حضرت ابو سعید نے حضرت انس کی روایت سے بھی ایسی ہی حدیث بیان کی ہے۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ آیۃ فَاَمَا الَّذِیْنَ شَقُوْا میں استثناء کا رجوع (گناہ گار) مؤمنوں کی طرف ہے۔ بدبخت مؤمنوں کو گناہوں کی سزا میں اللہ دوزخ میں ڈال دے گا ‘ پھر (ایک مدت کے بعد) وہاں سے رہا کر دے گا۔ حضرت انس ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کچھ لوگوں کو گناہوں کی سزا میں دوزخ کی لپٹ لگے گی ‘ پھر اللہ اپنی رحمت سے ان کو جنت میں داخل فرما دے گا اور ان کو (اہل جنت کی طرف سے) جہنمی کہا جائے گا۔ رواہ البخاری۔ حضرت عمران بن حصین راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی شفاعت سے دوزخ سے نکال لئے جائیں گے ‘ پھر ان کو جنت میں داخل کرلیا جائے گا۔ لوگ ان کو جہنم والے کہیں گے۔ رواہ البخاری۔ طبرانی نے حضرت مغیرہ بن شعبہ کی روایت سے بھی ایسی حدیث نقل کی ہے۔ اس روایت میں اتنا زائد ہے کہ وہ لوگ اللہ سے دعا کریں گے کہ جہنمی کا نام ان سے مٹا دے۔ ان کی دعا پر اللہ یہ نام ان سے مٹا دے گا۔ حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت کے کچھ لوگوں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے عذاب دیا جائے گا اور جتنی مدت اللہ چاہے گا وہ دوزخ میں رہیں گے۔ (دوزخ میں) مشرک ان کو عار دلائیں گے کہ تم کو تمہارے ایمان نے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا (ہماری طرح تم بھی دوزخ میں ہو) اس پر اللہ ہر موحد کو دوزخ سے نکال لے گا ‘ کوئی موحد وہاں باقی نہیں رہے گا۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ ۔ اسی مفہوم کو (دوسرے الفاظ میں) ایک طویل حدیث کے ذیل میں طبرانی اور بیہقی اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابو موسیٰ کی روایت سے بیان کیا ہے اور طبرانی نے حضرت ابو سعید کی روایت سے بھی اس کو نقل کیا ہے۔ گناہگار مؤمنوں کا دوزخ میں جانا ‘ پھر وہاں سے نکلنا اتنی احادیث میں آیا ہے جو حد تواتر تک پہنچ چکی ہیں۔ بیضاوی نے لکھا ہے : بدکار مؤمن دوزخ سے نکالے جائیں گے اور صحت استثناء کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ مجموعے سے کسی حکم کے منفی ہونے کے لئے بعض افراد سے حکم کا زوال کافی ہے اور استثناء دویم سے یہی (گناہگار مؤمن) مراد ہیں ‘ عذاب کے زمانے میں باوجود مؤمن ہونے کے یہ لوگ جنت سے دور ہوں گے۔ دوامی ‘ ابدی حکم کی نفی دونوں طور پر ہوتی ہے ‘ انتہاء کی جانب منقطع ہونا اور ابتداء کی جانب نقطہ آغاز ہونا۔ سے یہ لوگ نہ دوامی سعید ہوں گے نہ ابدی شقی ‘ بلکہ گناہوں کی وجہ سے شقی اور ایمان و یقین کی وجہ سے سعید۔ ایک شبہ اس صورت میں فَمِنْھُمْ شقی و سعید کہنا صحیح نہ ہوگا کیونکہ جب تیسری قسم نکل آئی جو سعید بھی ہے اور شقی بھی (عقیدہ کے اعتبار سے سعید اور اعمال کی وجہ سے شقی) تو شقی اور سعید کو دو قسمیں قرار دینا اور دونوں کو باہم مقابل اور حریف سمجھنا غلط ہوگا۔ ازالہ تقابل اور دو چیزوں کے اتصال کی تین صورتیں ہوتی ہیں : 1) دونوں چیزیں ایک وقت میں ایک جگہ جمع نہ ہو سکیں اور نہ یہ ممکن ہو کہ دونوں نہ ہوں بلکہ ایک کا ہونا اور دوسری کا نہ ہونا ضروری ہے ‘ جیسے وجود و عدم ۔ اثبات و نفی۔ 2) دونوں چیزوں کا ایک ہی وقت میں ایک جگہ جمع ہونا ممکن نہ ہو لیکن یہ ممکن ہو کہ دونوں چیزیں نہ ہوں ‘ تیسری کوئی چیز ہو جیسے سیاہی اور سفیدی۔ ایک چیز سیاہ بھی ہو اور سفید بھی ‘ ایسا نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ سیاہ بھی نہ ہو اور سفید بھی نہ ہو ‘ سرخ یا زرد ہو۔ 3) یہ ممکن نہ ہو کہ دونوں چیزیں نہ ہوں لیکن دونوں کا جمع ہونا ممکن ہو۔ جیسے یہ ممکن نہیں کہ قیامت کے دن حشر کے بعد کوئی شخص سعید بھی نہ ہو اور شقی بھی نہ ہو ‘ البتہ یہ ممکن ہے کہ سعید بھی ہو اور شقی بھی۔ عارضی مدت کے لئے دوزخ میں چلا جائے ‘ یہ اس کی شقاوت ہو پھر رہائی پا کر جنت میں داخل ہوجائے ‘ یہ اس کی سعادت ہو (مترجم) ۔ آیت میں یہی تیسری قسم مراد ہے یعنی کچھ لوگ خالص سعید ہوں گے ‘ کچھ خالص شقی اور کچھ سعید و شقی کا مجموعہ۔ ایسا کوئی نہ ہوگا کہ سعید بھی نہ ہو اور شقی بھی نہ ہو۔ بعض علماء نے کہا : ما شاء سے مراد ہے من شاء اور من شاء سے مراد ہیں گنہگار مؤمن۔ بعض اہل تفسیر نے کہا کہ حساب کے لئے میدان حشر میں کھڑے ہونے کا وقت یا دنیا میں عالم بزرخ میں رہنے کا وقت مستثنیٰ ہے۔ اہل سعادت کا دوامی جنتی ہونا اور اہل شقاوت کا دوامی دوزخی ہونا ‘ حساب کتاب کے بعد ہوگا۔ اللہ نے حساب کا پورا وقت یا دنیا میں رہنے کا وقت یا بزرخ میں رہنے کا وقت ‘ سکونت جنت و دوزخ کے حکم سے مستثنیٰ کردیا۔ ان اوقات میں آدمی نہ جنت میں ہوگا نہ دوزخ میں۔ اس تفسیر پر ممکن ہے بلکہ احتمال ہے کہ حسب قول بیضاوی خلود سے استثناء ہو یعنی ان اوقات کے علاوہ جنتی کا جنت میں اور دوزخی کا دوزخ میں خلود و دوام ہوگا۔ بعض علماء نے کہا کہ استثناء کا رجوع لَھُمْ فِیْھَا زَفِیْرٌ وَّ شَھِیْقٌ کی طرف ہے ‘ یعنی جتنی مدت اور جن اوقات میں اللہ کو منظور ہوگا ‘ ان کا زفیر و شہیق نہ ہوگا۔ سیوطی نے البدور السافرہ میں لکھا ہے : زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ لفظ الاَّ کو لیس کے معنی میں قرار دیا جائے ‘ استثناء کے لئے نہ قرار دیا جائے یعنی الاَّ کے معنی اس جگہ علاوہ اور سوا کے ہیں۔ جیسے عربی میں بولا جاتا ہے : لَکَ عَلَيَّ اَلْفُ درھمٍ الاَّ الْاَلْفَانِ الْقَدِیْمَان تیرے مجھ پر ہزار درہم ہیں ‘ علاوہ سابق کے دوہزار کے (یعنی کل تین ہزار ہیں) آیۃ کا مطلب اس صورت میں یہ ہوگا کہ وہ وہاں اتنی مدت رہیں گے جتنی مدت دنیا کے آسمان و زمین باقی تھے ‘ علاوہ اس زیادہ (غیر متناہی) مدت کے جتنا اللہ ان کو وہاں رکھنا چاہے گا۔ مراد یہ ہے کہ ہمیشہ وہاں رہیں گے۔ لیکن اس پیچ دار اسلوب عبارت کا فائدہ کیا ہے اور بیچ میں مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالاَرْض ذکر کرنے کا نتیجہ کیا ہے ‘ اس نکتہ کو سمجھنے کے لئے دقت نظر کی ضرورت ہے۔ پہلے طول مدت کو ذہن نشین کرنے کے لئے مدت بقائے سماء و ارض کو ذکر کیا جس سے لوگ واقف تھے ‘ پھر اس کے بعد غیر متناہی اور ان گنت مدت کی طرف اشارہ کیا ہے تاکہ غیر متناہی مدت کا طول سمجھ میں آجائے۔ بعض علماء نے کہا : اِلاَّ بمعنی واؤ (اور) ہے ‘ جیسے دوسری آیت میں آیا ہے : لِءَلاَّ یَکُوْنَ للنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّۃٌ الاَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا تاکہ تمہارے خلاف لوگوں کو کوئی دلیل نہ ملے اور نہ ظالموں کو تم پر کوئی حجت حاصل ہو۔ مطلب یہ ہے کہ وہ وہاں رہیں گے جب تک آسمان اور زمین قائم رہیں گے اور جب تک اللہ چاہے گا ‘ یعنی ہمیشہ رہیں گے۔ فراء نے کہا : یہ استثناء تو ہے مگر ایسا استثناء ہے کہ اس کا فعلی ظہور کبھی نہیں ہوگا۔ اگر تمہارا ارادہ پختہ طور پر کسی کو مارنے کا ہو مگر تم اس طرح کہو : خدا کی قسم ! میں تجھے ضرور ماروں گا مگر اس وقت جب کہ نہ مرنا میری نظر میں بہتر ہو (تو نہیں ماروں گا) اس صورت میں مطلب اس طرح ہوگا کہ وہ وہاں اس وقت تک رہیں گے جب تک اللہ چاہے گا ‘ جب اللہ اس کے خلاف چاہے گا تو وہ نکال لئے جائیں گے یعنی اگر اللہ چاہے گا تو ان کو رہائی دے گا ‘ لیکن وہ ایسا کبھی نہیں چاہے گا۔ قتادہ نے کہا : (ہمیں نہیں معلوم) اللہ ہی اس استثناء کے مطلب سے واقف ہے۔ (1) [ اس فقیر کی نظر میں آیۃ کے مطلب میں کوئی ابہام نہیں بلکہ اس طرز بیان میں خاص ندرت ہے اور کوتاہ نظر لوگوں کے دماغوں میں پیدا ہونے والے شبہ کا جواب ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ آیۃ میں بعض احوال آخرت کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ مؤمنوں کے لئے دوامی جنت اور کافروں کے لئے دوامی دوزخ کی صراحت کی ہے اور یہی قرینہ ہے اس بات کا کہ سماوات و ارض سے مراد جنت و دوزخ کے آسمان و زمین ہیں اور چونکہ یہ اخروی آسمان و زمین لازوال ہیں اور جنت کے اندر سکونت کو بقائے سماء و ارض کے ساتھ مقید کیا ہے ‘ اس لئے جنت و دوزخ کی سکونت بھی دوامی ہوگی۔ لیکن اس صراحت کے بعد کیا خدا مجبور ہوگیا ؟ کیا وہ مشیت سے معطل ہوگیا ؟ کیا اس کا کوئی اختیار نہیں رہا ؟ یہ شبہ پیدا ہوسکتا تھا ‘ اس کو زائل کرنے کے لئے مشیت کا استثناء کرلیا جس کا مطلب یہ نکلا کہ اللہ نے جنتیوں کے لئے جنت اور دوزخیوں کے لئے دوزخ گو دوامی کردی لیکن وہ مجبور نہیں ہوگیا ‘ اس کی مشیت اس کے خلاف بھی کارفرما ہوسکتی ہے یعنی یہ دوامی حکم اس نے اپنی مشیت سے جاری کیا ہے اور اس حکم کے اجراء کے بعد اس کی مشیت و اختیار کی صفت سلب نہیں ہوگئی ‘ وہ جب چاہے مذکورہ صراحت کے خلاف بھی اپنے اختیار کو استعمال کرسکتا ہے مگر چونکہ اس نے وعدہ کرلیا ہے اور سز او جزا دوامی ہونے کی صراحت کردی ہے ‘ اس لئے باوجود اختیار کامل اور مشیت تامہ کے اس حکم کو منسوخ نہیں کرے گا۔ وا اللہ اعلم (مترجم)] ان ربک فعال لما یرید بیشک آپ کا رب جو کچھ چاہے پورے طور پر اس کو کرسکتا ہے۔ یعنی اس کا اختیار کلی اور ہمہ گیر ارادہ اور محیط کل مشیت آزاد ہے ‘ وہ مجبور نہیں ہے کہ اہل جنت کو جنت اور اہل نار کو دوزخ کی سکونت دوامی دینے کے بعد بےاختیار ہوگیا ہو کہ کسی کو اس کے مسکن سے باہر نہ نکال سکے ‘ لیکن نکالے گا نہیں۔ بقول فراء یہ استثناء صحیح ہے ‘ اس کا فعلی ظہور کبھی نہیں ہوگا (مترجم)
Top