Tafseer-e-Mazhari - Hud : 112
فَاسْتَقِمْ كَمَاۤ اُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَكَ وَ لَا تَطْغَوْا١ؕ اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
فَاسْتَقِمْ : سو تم قائم رہو كَمَآ : جیسے اُمِرْتَ : تمہیں حکم دیا گیا وَمَنْ : اور جو تَابَ : توبہ کی مَعَكَ : تمہارے ساتھ وَلَا تَطْغَوْا : اور سرکشی نہ کرو اِنَّهٗ : بیشک وہ بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
سو (اے پیغمبر) جیسا تم کو حکم ہوتا ہے (اس پر) تم اور جو لوگ تمہارے ساتھ تائب ہوئے ہیں قائم رہو۔ اور حد سے تجاوز نہ کرنا۔ وہ تمہارے سب اعمال کو دیکھ رہا ہے
فاستقم کما امرت ومن تاب معک پس جو حکم آپ کو دیا گیا ہے ‘ آپ بھی اس پر قائم رہیں اور وہ لوگ بھی جو آپ کے ساتھ ایمان لائے ہیں۔ جب اللہ نے مؤمنوں اور کافروں یعنی توحید و نبوت کو ماننے اور نہ ماننے والوں کا ذکر پہلے کردیا اور سزا و جزا کے وعد اور وعید کی بھی وضاحت کردی تو اب استقامت کا حکم دیا رسول اللہ ﷺ کو بھی اور دوسرے اہل ایمان کو بھی۔ استقامت کا لفظ اپنے اندر عموم رکھتا ہے ‘ ہر طرح کی استقامت کو شامل ہے۔ 1) عقائد کی استقامت ‘ یعنی اللہ کی ذات کو تمام صفات کمالیہ کا جامع سمجھنا (صفات خداوندی کا انکار نہ کرنا) مگر اس کی صفات کو مخلوق کو صفات کے مشابہ بھی نہ قرار دینا (یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ کی کوئی صفت مخلوق کی صفت کی طرح نہیں ہے ‘ اس کی صفات کامل ہیں) اور نہ بندوں کو بالکل مجبور سمجھ لینا نہ کامل مختار (یعنی انسان کو در و دیوار اور چرند و پرند کی طرح بےاختیار بھی نہ سمجھنا اور نہ قادر مطلق ‘ بےلگام مختار کہ جیسا چاہے کرسکے اور جب چاہے کرسکے ‘ بلکہ درمیانی سیدھی راہ پر ہی چلنا) ۔ 2) اعمال کی استقامت ‘ یعنی وحی اور شریعت کو پورا پورا بیان کردینا ‘ نہ اس میں زیادتی کرنا نہ کمی۔ 3) عبادات اور معاملات کو ان کے حقوق کے موافق ادا کرنا ‘ نہ ان میں (جذبۂ خیر کے زیر اثر) زیادتی کرنا (کہ پانچ وقت کی جگہ چھ وقت نماز فرض قرار دے دی جائے) نہ کمی کرنا (کہ چار رکعت فرض کی جگہ تین رکعتیں مقرر کرلی جائیں) ۔ حضرت سفیان بن عبد اللہ ثقفی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! اسلام کے متعلق مجھے کوئی ایسی بات بتا دیجئے کہ آپ کے بعد میں کسی سے پوچھنے کا محتاج نہ رہوں۔ فرمایا : اٰمَنْتُ باللٰہِ کہو اور استقامت رکھو۔ رواہ مسلم (یعنی سیدھی چال چلو اور اس پر قائم رہو) لفظ استقامت تمام امور کو حاوی ہے۔ حضرت عمر ؓ بن خطاب نے فرمایا : استقامت (سے مراد) یہ ہے کہ اوامرو نواہی پر قائم ہوجائے اور لومڑی کی طرح (راہ مستقیم سے ادھر ادھر نہ مڑے۔ استقامت بہت ہی سخت حکم ہے (یعنی اس پر عمل کرنا انتہائی دشوار ہے) اس لئے صوفیاء کا قول ہے کہ استقامت کا مرتبہ کرامت سے اونچا ہے۔ بغوی نے حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی پوری نبوت کی مدت میں اس آیت سے زیادہ سخت آپ ﷺ پر کوئی اور آیت نازل نہ ہوئی ‘ اس لئے حضور ﷺ نے فرمایا تھا : مجھے سورة ہود نے بوڑھا کردیا۔ میں کہتا ہوں : حضرت ابن عباس ؓ کے اس قول سے معلوم ہو رہا ہے کہ سورة ہود نے جو رسول اللہ ﷺ کو بوڑھا کردیا ‘ اس سے مراد پوری سورة نہیں بلکہ) اس سورة کی یہی ایت ہے جس میں استقامت کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ حضور ﷺ گو فطرتاً اور تخلیقاً استقامت کے حامل تھے مگر آپ ﷺ پر ایمان لانے والے اور آپ ﷺ کا اتباع کرنے والی ساری امت تو ایسی نہ تھی اور امت پر آپ ﷺ بڑے مہربان تھے ‘ اسی فکر نے آپ ﷺ کو بوڑھا کردیا کہ امت کے لئے استقامت سخت دشوار ہے ‘ اس کا کیا ہوگا۔ بظاہر فرمان نبوی شیبتنی سورة ہود کا یہ مطلب معلوم ہوتا ہے کہ سورة ہود میں گذشتہ امتوں کی نافرمانی اور ان کی ہلاکتوں کا بیان کیا گیا ہے جس سے اشارہ اس امر کی طرف بھی مستفاد ہوتا ہے کہ اس امت کے ظالموں کو بھی دنیا اور آخرت میں ایسے ہی عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ اس اندیشے نے حضور ﷺ کو بوڑھا کردیا۔ ولا تطغوا انہ بما تعملون بصیر اور (حدو و شرع سے) تجاوز نہ کرو کہ اللہ تمہارے تمام اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ بعض علماء نے کہا : طغیان نہ کرنے سے مراد غلو کرنا ‘ یعنی اوامرو نواہی کو ان کی مقررہ حدود سے آگے بڑھانا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دین آسان ہے ‘ اس میں جو شدت اختیار کرے گا (آخر تھک جائے گا ‘ قوت جسمانی جواب دے دے گی اور) دینی شدت اس کو مغلوب کر دے گی۔ لہٰذا تم سیدھی اور درمیانی چال چلو اور (کامیابی کی لوگوں کو) بشارت دو (سختی کر کے مایوس نہ بناؤ) اور رفتار صبح و شام اور کچھ سیر شب سے مدد حاصل کرو۔ رواہ البخاری و النسائی۔ میں کہتا ہوں : اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو بوڑھا کردینے والابار استقامت تھا (کہ لوگ احکام میں استقامت نہیں رکھ سکیں گے) ۔
Top