Tafseer-e-Mazhari - Hud : 113
وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ١ۙ وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ
وَ : اور لَا تَرْكَنُوْٓا : نہ جھکو اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے ظَلَمُوْا : ظلم کیا انہوں نے فَتَمَسَّكُمُ : پس تمہیں چھوئے گی النَّارُ : آگ وَمَا : اور نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ دُوْنِ : سوا اللّٰهِ : اللہ مِنْ : کوئی اَوْلِيَآءَ : مددگا۔ حمایتی ثُمَّ : پھر لَا تُنْصَرُوْنَ : نہ مدد دئیے جاؤگے
اور جو لوگ ظالم ہیں، ان کی طرف مائل نہ ہونا، نہیں تو تمہیں (دوزخ کی) آگ آلپٹے گی اور خدا کے سوا تمہارے اور دوست نہیں ہیں۔ اگر تم ظالموں کی طرف مائل ہوگئے تو پھر تم کو (کہیں سے) مدد نہ مل سکے گی
ولا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار اور ظالموں کی طرف نہ جھکو کہ (اس میلان کی وجہ سے) تم کو بھی آگ لگ جائے گی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : رکون سے مراد ہے : محبت اور دل کا جھکاؤ یعنی دل سے مائل نہ ہو۔ ابو العالیہ نے کہا : ظالموں کے اعمال کو پسند نہ کرو۔ سدی نے کہا : ظالموں کے معاملہ میں چشم پوشی اور مداہنت نہ کرو۔ عکرمہ نے کہا : ظالموں کا کہا نہ مانو۔ بیضاوی نے لکھا ہے : ادنیٰ جھکاؤ بھی ظالموں کی طرف نہ کرو۔ رکون کا معنی ہے : ادنیٰ میلان۔ مثلاً ظالموں کا کلچر اور طور طریقہ اختیار کرنا ‘ ان کا ذکر تعظیم کے ساتھ کرنا ‘ یہ ادنیٰ میلان ہے۔ بیضاوی نے لکھا ہے : جب ظالموں کی طرف ادنیٰ جھکاؤ کا نتیجہ دوزخ ہے تو سمجھو کہ خود ظلم کرنے اور ظلم میں منہمک رہنے کا نتیجہ کیا ہوگا۔ یہ ظلم سے بازداشت کرنے کا بلیغ ترین اسلوب بیان ہے۔ روایت میں ایا ہے کہ ایک شخص کسی امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا تھا۔ امام نے یہ آیت پڑھی ‘ یہ شخص سن کر بےہوش ہوگیا۔ کچھ دیر کے بعد ہوش میں آیا اور بےہوشی کی وجہ دریافت کی گئی تو بولا : یہ سزا تو ظالم کی طرف مائل ہونے والے کی ہے ‘ ظالم کا کیا ہوگا (اس تصور نے مجھے بےہوش کردیا) ۔ حسن بصری کا قول منقول ہے کہ اللہ نے دین کو دو لاَ کے درمیان کردیا ہے ‘ ایک لا یطغوا اور دوسرا لا ترکنوا (خود بھی حد سے تجاوز نہ کرو اور ظالم کی طرف مائل بھی نہ ہو) ۔ امام اوزاعی نے فرمایا : اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مبغوض وہ عالم ہے جو ظالم کی ملاقات کو جاتا ہے۔ حضرت اوس کا بیان ہے : میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ جو شخص ظالم کو ظالم جانتے ہوئے قوت پہنچانے کے لئے اس کے ساتھ جاتا ہے ‘ وہ اسلام سے نکل جاتا ہے۔ ایک شخص کہہ رہا تھا : ظالم اپنا ہی نقصان کرتا ہے ‘ دوسرے کا نہیں کرتا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے یہ بات سن کر فرمایا : کیوں نہیں ‘ ظالم کے ظلم سے تو چڑیاں بھی اپنے آشیانے میں بھوکی مرجاتی ہیں۔ یہ دونوں حدیثیں شعب الایمان میں مذکور ہیں۔ بیضاوی نے لکھا ہے : رسول اللہ ﷺ کو اور آپ ﷺ کے ساتھ مؤمنوں کو اس آیت میں خطاب کی غرض یہ ہے کہ استقامت یعنی عدل پر ثابت قدم رہیں (افراط وتفریط کی طرف مائل نہ ہوں) افراط وتفریط کی طرف جھکاؤ سے اپنے اوپر ظلم ہو یا دوسرے پر ‘ وہ تو فی نفسہٖ ظلم ہے (خواہ اس کی زد کی پر پڑے یا نہ پڑے) ۔ وما لکم من دون اللہ من اولیاء ثم لا تنصرون اور اللہ کے مقابلہ میں تمہارا کوئی مددگار نہ ہوگا ‘ پھر تمہاری مدد (کہیں سے بھی) نہیں کی جائے گی۔ اولیاء یعنی مدد گار ‘ جو عذاب کو دفع کرسکیں۔ ثُمَّ لاَ تُنْصَرُوْنَ یعنی پھر اللہ تمہاری مدد نہیں کرے گا ‘ تم کو عذاب دینے کا محکم ازلی فیصلہ ہوچکا ہے۔ ثُمَّ استبعاد کے لئے ہے یعنی اللہ کی طرف سے تمہاری مدد ہونی بہت بعید (ناممکن) ہے ‘ یا کسی طرف سے بھی تمہاری مدد ممکن نہیں۔ جس کو اللہ عذاب دینا طے کرلے اس کی مدد کون کرسکتا ہے۔ ترمذی اور نسائی نے بیان کیا کہ حضرت ابو الیسر (بقول بغوی ان کا نام عمرو بن عریہ انصاری تھا) نے فرمایا : ایک عورت کچھ چھوارے خریدنے میرے پاس آئی۔ میں نے کہا : گھر کے اندر اس سے اچھے چھوارے ہیں (تم میرے ساتھ چل کر دیکھ لو) وہ میرے ساتھ اندر چلی گئی۔ اندر پہنچ کر میں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اس کا بوسہ لے لیا (کرنے کو تو ایسا کر گذرا) پھر مجھے اپنے کئے پر پچھتاوا ہوا اور حضرت ابوبکر کی خدمت میں آکر واقعہ عرض کردیا۔ آپ نے فرمایا : توبہ کرو اور اس کو ظاہر نہ کرو۔ آخر مجھ سے ضبط نہ ہوسکا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر واقعہ عرض کردیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : کیا جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے گیا ہوا ہے ‘ تو نے اس کی غیبت میں اس کی بیوی کے ساتھ ایسی حرکت کی ؟ اندازہ ہوتا تھا کہ حضور ﷺ نے میرے دوزخی ہونے کا خیال کرلیا۔ پھر آپ ﷺ نے تھوڑی دیر سر جھکایا اور آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top