Tafseer-e-Mazhari - Hud : 16
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ١ۖ٘ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ لَيْسَ لَهُمْ : ان کے لیے نہیں فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں اِلَّا النَّارُ : آگ کے سوا وَحَبِطَ : اور اکارت گیا مَا : جو صَنَعُوْا : انہوں نے کیا فِيْهَا : اس میں وَبٰطِلٌ : اور نابود ہوئے مَّا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آتش (جہنم) کے سوا کوئی چیز نہیں اور جو عمل انہوں نے دنیا میں کئے سب برباد اور جو کچھ وہ کرتے رہے، سب ضائع
اولئک الذین لیس لھم فی الاخرۃ الا النار یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کیلئے آخرت میں بجز دوزخ کے اور کچھ نہیں۔ یعنی جو لوگ اپنے عمل اور نیکی کے عوض محض دنیوی زندگی کی درازی ‘ صحت ‘ مال و اولاد کی کثرت ‘ حسین بیویاں اور نوکرچاکر ‘ خدمت گار حاصل کرنا چاہتے ہیں ‘ ہم دنیا میں ان کو یہ چیزیں ان کے اچھے اعمال کے بدلہ میں پوری پوری دے دیتے ہیں ‘ کسی قسم کی حق تلفی اور ادائے عوض میں کمی نہیں کرتے مگر آخرت میں ان کے اچھے عمل کا کوئی اچھا بدلہ نہیں دیا جائے گا۔ وہاں سوائے دوزخ کے ان کو اور کچھ نہیں ملے گا کیونکہ اچھے کاموں کا اچھا بدلہ تو ان کو دنیا میں دے دیا جاتا ہے اور برے کام رہ جاتے ہیں ‘ سو ان کا بدلہ آخرت میں ملے گا۔ وحبط ما صنعوا فیھا اور انہوں نے دنیا میں جو کچھ اچھا کام کیا تھا ‘ وہ آخرت میں سب کا سب ناکارہ ثابت ہوگا۔ یعنی دنیا میں جو انہوں نے نیکیاں کی ہوں گی ‘ ان کا ثواب آخرت میں باقی نہیں رہے گا۔ یا یہ مطلب ہے کہ آخرت میں ان کیلئے کوئی ثواب نہ ہوگا ‘ کیونکہ انہوں نے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے تو نیکیاں کی نہیں تھیں کہ ان کو آخرت میں اجر دینا اللہ کے ذمے ضروری قرار پا جاتا۔ فیھاکی ضمیر اگر آخرت کی طرف لوٹائی جائے تو اسکا تعلق حبط سے ہوگا اور اگر دنیا کی طرف راجع کی جائے تو صنعوا سے تعلق ہوگا۔ وباطل ما کانوا یعملون۔ اور جو (نیکیاں دنیا میں) وہ کرتے ہیں ‘ وہ حقیقت میں بےکار جائیں گی ‘ کیونکہ جس جذبے کے تحت ان کو ہونا چاہئے تھا ‘ وہ جذبہ اور وہ رخ مفقود تھا۔ بظاہر معلوم ہو رہا ہے کہ یہ آیت کافروں کے حق میں ہے۔ بخاری نے ایک طویل حدیث حضرت عمر ؓ کی روایت کردہ بیان کی ہے ‘ اس میں حضرت عمر ؓ کا یہ بیان مذکور ہے : میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو خدا کی قسم ! مجھے رسول اللہ ﷺ کے گھر میں سوائے تین کچے چمڑوں کے اور کچھ دکھائی نہ دیا۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! دعا فرمائیے کہ اللہ آپ ﷺ کی امت کو فراخی عنایت فرما دے۔ اہل فارس اور اہل روم کو تو اللہ نے وسعت مالی عطا فرمائی ہے اور باوجودیکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے مگر ان کو دنیا دے دی گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت تکیہ لگائے ہوئے تھے ‘ یہ سن کر بیٹھ گئے اور فرمایا : ابن خطاب ! کیا تم اس خیال میں ہو (یہ لوگ تو دنیا کے طالب ہیں ‘ پس) ان کو دنیوی زندگی میں ان کی لذتیں دے دی گئی ہیں اور مؤمن کا مقصد دنیا اور آخرت دونوں ہیں اور ارادۂ آخرت غالب ہے ‘ اسلئے اس کو نیکیوں کا بدلہ دنیا میں بھی دے دیا جاتا ہے اور آخرت میں بھی نیکیوں کا ثواب دیا جائے گا۔ حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ مؤمن پر ظلم نہیں کرتا (اس کی) نیکی کا اجر دنیا میں (بھی) اس کو دیا جاتا ہے اور آخرت میں اس کا ثواب دیا جائے گا۔ رہا کافر کہ اس کی نیکیوں کے عوض دنیا میں اس کو کھانے کو دیا جاتا ہے ‘ پھر جب آخرت میں پہنچے گا تو اس کی کوئی نیکی ہی نہ ہوگی جس کی وجہ سے اس کو کوئی بھلائی دی جائے۔ رواہ مسلم و احمد۔ میں کہتا ہوں : آیت لَیْسَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ الاَّ النَّار میں خود قرینہ ہے کہ اس کا نزول کافروں کے حق میں ہوا کیونکہ باجماع علماء اہل ایمان کا آخر کار جنت میں جانا ثابت ہے۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ آیت کا نزول ریا کاروں (دکھانے کیلئے نیکی کرنے والوں) کے حق میں ہوا۔ حضرت ابو سعید بن فضالہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب قیامت کے دن (یعنی ایسے دن) جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ‘ اللہ سب لوگوں کو جمع کرے گا تو ایک منادی ندا دے گا : جس نے کوئی عمل اللہ کیلئے کیا ہو مگر اس میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو بھی شریک کرلیا ہو تو وہ اپنے عمل کا اجر اسی شریک سے طلب کرے ‘ اللہ تو ہر شرک سے بےنیاز ہے۔ رواہ احمد۔ حضرت انس ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کی نیت آخرت کی طلب کی ہوتی ہے ‘ اللہ اس کے دل میں (دنیا کی ہر چیز سے) بےنیازی پیدا کردیتا ہے اور اس کی پریشان حالی کو ٹھیک کردیتا ہے اور دنیا ذلیل ہو کر اس کے پاس (دوڑتی) آتی ہے اور دنیا کی طلب کی نیت ہوتی ہے تو فقر (احتیاج) کو اللہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان پیدا کردیتا ہے (یعنی اس کے سامنے احتیاجات و ضروریات غیر محدود طور پر آجاتی ہیں) اور اللہ اس کو پریشان حال کردیتا ہے اور دنیا اتنی ہی اس کو ملتی ہے جتنی اللہ نے اس کیلئے لکھ دی ہے۔ رواہ الترمذی۔ یہ حدیث امام احمد اور دارمی نے بوساطت ابان ‘ حضرت زید بن ثابت کی روایت سے نقل کی ہے۔ ایک شبہ : آیت نُوَفِّ اِلَیْھِمْ اَعْمَالَھُمْ فِیْھَا وَھُمْ فِیْھَا لاَ یُبْخَسُوْنَاور حدیث لاٰیٰاتِیہ مِنْھَا الا ما کتب لہٗ میں بظاہر تضاد معلوم ہوتا ہے۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں اعمال کا بدلہ پورا پورا دے دیا جاتا ہے اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے جو کچھ لکھ دیا ہے وہی ملتا ہے ‘ اس سے زائد نہیں ملتا۔ ازالہ : دونوں میں کوئی تضاد نہیں۔ تمام اعمال کا پورا پورا بدلہ ملنا بھی اللہ نے لکھ دیا ہے ‘ پس اعمال کا پورا بدلہ ملے گا۔ یعنی وہی ملے گا جو لکھا ہوا ہے ‘ اس سے زائد نہیں ملے گا خواہ دنیا طلب آدمی ان گنت چیزوں کا طلبگار ہو۔ (ایک حدیث کا مفہوم ہے) اگر آدمی کے پاس دو وادی بھر سونا ہو تب بھی وہ تیسری وادی (زریں) کا طالب ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں : اگر آیت کا حکم ریا کاروں کے متعلق ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ جو اعمال انہوں نے دکھاوٹ کیلئے کئے ہوں گے ‘ ان کا بدلہ سوائے دوزخ کے اور کچھ نہ ہوگا۔
Top