Tafseer-e-Mazhari - Hud : 22
لَا جَرَمَ اَنَّهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ هُمُ الْاَخْسَرُوْنَ
لَا جَرَمَ : شک نہیں اَنَّهُمْ : کہ وہ فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں هُمُ : وہ الْاَخْسَرُوْنَ : سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے
بلاشبہ یہ لوگ آخرت میں سب سے زیادہ نقصان پانے والے ہیں
لا جرم انھم فی الاخرۃ ھم الا خسرون۔ لامحالہ وہ ہی آخرت میں سب سے بڑھ کر نامراد ہوں گے۔ لاَ جَرَمَ (کی لفظی ساخت اور معنوی دلالت) میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک لا زائد ہے ‘ یعنی مشرکوں کے گمان کے موافق نہ ہوگا۔ اس کے بعد جَرَمَ فعل ماضی متعدی ہے ‘ اس کے اندر ضمیر فاعل ہے اور اَنَّھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ الخ مفعول ہے۔ اس وقت جَرَمَکا معنی ہوگا کَسَبَیعنی ان کا گمان آخرت میں یہ نتیجہ پیدا کرے گا کہ وہی سب سے خسارے میں رہیں گے۔ یا جَرَمَفعل ماضی ہے ‘ لازم بمعنی وَجَبَاور بعد والا جملہ اس کا فاعل ہے ‘ یعنی آخرت میں سب سے بڑھ کر نامراد ہونا واجب ہوگیا۔ بعض کے نزدیک لاَ جَرَمَ دو لفظوں کا مرکب ہے اور مرکب کا معنی ہے حقّا اور بعد والا جملہ فاعل ہے ‘ یعنی ان کا سب سے زیادہ نامراد رہنا حق اور ثابت شدہ ہے۔ یا لاَ جَرَمَ کا معنی ہے لامحالہ۔ قاموس میں ہے : لاَ جَرَمَ اور لاَ ذَا جَرَمَ اور لاَ اَنْ جَرَمَ اور لاَ اَنْ ذا جَرَمَاور لاَ جَرُمَ سب کا معنی ہے کوئی چارہ نہیں کہ ‘ یا یقیناً یا لامحالہ۔ یہ تو لفظ لاَ جَرَمَ کی لغوی و وضعی تنقیح ہے ‘ لیکن استعمال میں کبھی اس کو بجائے قسم کے لے آتے ہیں اور اس وقت جواب میں لَ تاکیدی استعمال کرتے ہیں ‘ جیسے کہتے ہیں : لاَ جَرَمَ لَاٰتیَنَّکَ ۔ الْاَخْسَرُوْنَ اسم تفضیل کا صیغہ ہے ‘ یعنی سب سے زیادہ نامراد اور خسارہ یاب۔ بات یہ ہے کہ دوسروں کی نامرادی تو کفر اور معاصی کی وجہ سے ہوگی ‘ اور یہ خود کافر ہونے کے علاوہ دوسروں کو بھی ایمان سے روکنے والے ہیں ‘ اسلئے ان کی نامرادی سب سے زیادہ ہوگی۔
Top